مودی حکومت ضد چھوڑ کر تینوں زرعی قوانین واپس لے: کانگریس

’’سیاہ قوانین میں حکومت نے امیر دوستوں کے لیے اناج کی ذخیرہ اندوزی، جمع خوری، کالابازاری کا ’تحفہ‘ لکھ دیا اور کسانوں کے حصے میں لاٹھی چارج، پانی کی بوچھار اور آنسو گیس کے گولوں کا ’ظلم‘ لکھ دیا۔‘‘

کانگریس لیڈر آر ایس سرجے والا / تصویر یو این آئی
کانگریس لیڈر آر ایس سرجے والا / تصویر یو این آئی
user

تنویر

مودی حکومت نے گزشتہ سال 5 جون کو ہی زراعت سے متعلق تین متنازعہ قوانین کو پاس کیا تھا، اور آج کانگریس نے پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کیا ہے کہ کسانوں کے حق میں ان تینوں قوانین کو واپس لیا جائے۔ کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے اپنے پریس بیان میں کہا کہ ’’آج ان سیاہ قوانین کی برسی کے موقع پر مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے کو واپس لے اور ان قوانین کو فوراً خارج کرے۔ ورنہ جب بھی ’جمہوریت کے دیوتا، ملک کی عوام‘ کی عدالت میں ان مظالم اور بربریت کا مقدمہ چلے گا تب 500 سے زائد کسانوں کی شہادتیں، لاکھوں کسانوں کی راہ میں بچھائے گئے کیل اور کانٹے، مہینوں سڑکوں پر پڑے رہنے کی تکلیف اور 62 کروڑ کسان-مزدوروں کا ناقابل برداشت درد اس کی گواہ بنیں گی۔‘‘

رندیپ سرجے والا نے کہا کہ آج ہی کے دن 5 جون 2020 کو مودی حکومت نے سیاہ زرعی قوانین پاس کیا تھا اور صحیح معنوں میں مودی جی نے 25 لاکھ کروڑ روپے سالانہ کی زراعتی مصنوعات کے کاروبار کو اپنے مٹھی بھر امیر دوست کے ’موقع‘ لکھا اور 62 کروڑ کسانوں کے حصے میں انھوں نے ’مایوسی‘ لکھ دیا۔ کانگریس ترجمان نے مزید کہا کہ ’’ان سیاہ قوانین میں بی جے پی حکومت نے اپنے امیر دوستوں کے لیے اناج کی ذخیرہ اندوزی، جمع خوری، کالابازاری کا ’تحفہ‘ لکھ دیا اور کسانوں کے حصے میں لاٹھی چارج، پانی کی بوچھار اور آنسو گیس کے گولوں کا ’ظلم‘ لکھ دیا۔‘‘


پریس کانفرنس میں سرجے والا نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آتے ہی اس نے 2014 میں آرڈیننس کے ذریعہ کسانوں کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، پھر 2015 میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ دے دیا کہ کسانوں کو لاگت + پچاس فیصد منافع کبھی بھی ایم ایس پی کے طور پر نہیں دیا جا سکتا۔ بعد ازاں خریف 2016 میں وزیر اعظم فصل بیمہ منصوبہ لے کر آئے جس سے چند بیمہ کمپنیوں نے 26 ہزار کروڑ روپے کا منافع کمایا۔ اتنا ہی نہیں، اپنے امیر دوستوں کا تو تقریباً دس لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کر دیا، لیکن کسانوں کی قرض معافی کے نام پر منھ موڑ لیا۔ رہی سہی جو کسر بچی تھی، وہ ڈیزل پر 820 فیصد ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور زراعت پر ٹیکس لگا کر پوری کر دی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */