میگھالیہ کھدان حادثہ: کیا حکومت مزدوروں کے مرنے کی خبر کا انتظار کر رہی ہے

این ڈی آر ایف کی ٹیم کھدان سے پانی نکالنے کے لئے پمپ کا انتظار کر رہی ہے، ریاستی حکومت پانی نکالنے کے لئے مخصوص پائپوں کی مدد چاہتی ہے اور اس بیچ مزدوروں کے رشتہ دار تمام امید چھوڑ چکے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

میگھالیہ کی کھدان میں مزدوروں کو پھنسے ہوئے 15 دن سے زیادہ ہو گئے ہیں ، ریاستی حکومت کھدان سے پانی نکالنے کے لئے خصوصی پائپوں کے انتظام کے لئے مدد چاہتی ہے تو دوسری جانب وہاں پہنچی این ڈی آر ایف کی ٹیم کو پانی نکالنے کے لئے مخصوص پمپوں کا انتظار ہے ۔ اس بیچ ان مزدوروں اور ان کے رشتہ داروں پر کیا گزر رہی ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہے ۔وزیر اعظم یا ان کی حکومت کو اس تعلق سے کوئی فکر نہیں ۔اس تعلق سے کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی 25دسمبر کو ٹوئٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم آسام کے بوگی بیل پل پر تصویریں کھنچوانے میں مصروف ہیں جبکہ میگھالیہ میں کھدان مزدوروں کو پھنسے ہوئے دو ہفتہ ہو گئے ہیں۔

ادھر ایک ویب سائٹ کی خبر کے مطابق میگھالیہ کے کوئلہ کھدان میں مزدوروں کے پھنسنے کی اطلاع ملنے کے بعد ایک 60 سالہ بزرگ 400 کلومیٹر کا سفر طے کر کے گارو ہلس کے راج بالہ پہنچے اور وہ اس جگہ پر جم کر بیٹھ گئے جہاں کھدان میں داخل ہونے سے پہلے ان کے دو پوتوں کو آخری مرتبہ دیکھا گیا تھا ۔ وہاں راحت کا کام جاری ہے، یہ بزرگ 13 دن تک بیٹھے رہنے کے بعد اب اپنے گاؤں لوٹ گئے ہیں۔

کوئلہ کھدان سے کچھ فاصلہ پر ہی وہاں کے مزدوروں کی جھونپڑیاں ہیں ۔ ان جھونپڑیوں میں اگرکچھ بچا ہے تو بس ٹوٹے انڈوں کے کچھ چھلکے ، گندی پرانی چپلیں ، پلاسٹک کی خالی بوتلیں اور زمین پر کوئلہ کی کالی موٹی پرت ۔ کھدان میں پھنسے مزدوروں کا اب بھی ان کے خاندان والوں کو انتظار ہے ۔ وہ لوگ ان کے زندہ رہنے کی امید تو چھوڑ چکے ہیں بس وہ ان کے چہرے دیکھنے کا انتظا ر کر رہے ہیں۔

گاؤں مگر مارائی کے 55سالہ علی کا 18سالہ بیٹا اور 35سالہ بھائی اور 26 سال کا داماد سب کے سب کھدان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اس کھدان کے سردار نے میرے بیٹے، بھائی اور داماد کو اس نوکری کی پیش کش کی تھی ۔ کام کے بدلے ایک ہزار روپیہ یومیہ دینے کا وعدہ کیا تھا ، لیکن انہیں ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملی اور نہ ہی واپس آئے ‘‘۔ علی کو لگتا ہے کہ اب تینوں اس دنیا میں نہیں ہیں، اب ان کے سامنے ان کی بیوی ، بیٹی اور اس کی تین بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری ہے۔

علی یا اس کے گھر کے کسی فرد نے کبھی کوئلہ کھدان میں کام نہیں کیا تھا ، وہ 200 روپے کمیشن پر لوگوں کو گھر دلوانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ علی نے کہا ’’ سردار نے یہ نہیں بتایا کہ میرا بیٹا اب واپس آئے گا یا نہیں ‘‘۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ ہر ہفتہ کے آخر میں انہیں پیسے دیئے جائیں گے، لیکن چھٹے دن مزدور جیسے ہی کان کے اندر گئے وہ وہیں پھنس کر رہ گئے۔ انہوں نے کہا میرے پاس نہ ہمت ہے نہ پیسے ہیں وہاں جانے کی ۔وہ پوچھتے ہیں کیا ’’مجھے ان کا چہرا دیکھنا نصیب ہو گا ‘‘۔

13 دسمبر سے کھدان میں مزدور پھنسے ہوئے ہیں ۔ سال2014 میں نیشنل گرین ٹریبیونل (این جی ٹی ) نے میگھالیہ میں’ ریٹ ہول مائننگ‘ پر بین لگا دیا تھا جو محض ایک دکھاوا ثابت ہوا کیونکہ اسے کبھی لاگو ہی نہیں کیا گیا۔میگھالیہ پولس کے اپریل 2014 سے اس سال نومبر تک کے آن لائن ریکارڈس کے مطابق این جی ٹی کے احکام کی خلاف ورزی کے کم از کم 477معاملہ درج ہوئے ہیں۔ غیر قانونی کانکنی ، غیر قانونی ٹرانسپورٹیشن اور طے تعداد سے زیادہ کوئلہ کی ڈھلائی کے الزام میں کئی افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ، کئی ٹرک بھی ضبط کئے گئے۔اس کھدان کے مالک اور ڈیلر دونوں مقامی ہیں لیکن اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے مزدور سب باہر کے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق نیپال، بنگلہ دیش اور آسام سے ہے۔

واضح رہے کوئلہ کھدان کا پورا معاملہ سیاسی ہے اور یہ بات عام ہے کہ میگھالیہ میں کانگریس اس لئے ہی ہاری کیونکہ اس نے این جی ٹی کی پابندی ختم کرانے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔دوسری جانب بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں پابندی کو آٹھ مہینے میں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ یہ پابندی ابھی جاری ہے ۔کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد غیر قانونی کانکنی میں اضافہ ہو ا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */