میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں

لاوڑ کے سنیل کمار کا کہنا ہے کہ ماوی میرا کا واقعہ آئندہ ہونے والے پنچایت انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے انجام دیا گیا ہے اور آگے بھی الیکشن تک اس طرح کے کئی واقعات پیش آنے کا اندیشہ ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

میرٹھ: میرٹھ کے ماوی میرا گاؤں میں 23 دسمبر کی رات قرض ادا نہ کرنے کو لے کر ہونے والی تکرار کے بعد دبنگ طبقہ کے درجنوں افراد نے ایک فرقہ پر حملہ کر دیا۔ یہ واقعہ سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گیا۔ متاثرہ طبقہ کی طرف سے نقل مکانی کے اعلان کے بعد حرکت میں آئی انتظامیہ نے دبنگ طبقہ کے 12 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ گاؤں میں اب امن ہے۔ یہاں کے معززین کا کہنا ہے کہ یہ غنڈہ گردی اور دبنگئی کا مسئلہ ہے۔ نظامِ قانون کا بھی سوال ہے لیکن اسے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔

میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں
میرٹھ: دبنگوں کے حملے سے اقلیتوں میں خوف، مکانوں پر ’برائے فروخت‘ کے پوسٹر چسپاں

میرٹھ سے تقریباً 15 کلومیٹر دور ماوی میرا گاؤں لاوڑ قصبہ سے ملحقہ ہے اور یہاں کی آبادی ڈھائی ہزار کے قریب ہے۔ گاؤں میں 700 ہندو گوجر اور 800 اقلیتی طبقہ کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ ان دونوں طبقوں میں اس طرح کی کشیدگی کا واقعہ چوتھی مرتبہ پیش آیا ہے۔ گاؤں میں بقیہ دلت، سینی اور دیگر طبقہ کے لوگ موجود ہیں، کسی کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لاوڑ میں اقلیتوں کی اکثریت ہے، جبکہ ملحقہ گاؤں میں گوجروں کا غلبہ ہے۔ لاوڑ میں سیاسی سمجھ والے لوگ بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ سالوں میں گوجروں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے اور اقلیتوں سے ہونے والے تناؤ کی وجہ سے بھی وہ عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل یہاں سے رکن اسمبلی سنگیت سوم اور سماج وادی پارٹی کے لیڈر اتل پردھان کے درمیان گوجر طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کی ہوڑ چل رہی ہے۔

لاوڑ میرٹھ کا ایک امن پسند قصبہ ہے اور یہ میرٹھ ضلع کی سردھنہ اسمبلی سیٹ میں شامل ہے۔ یہاں کے لوگ مانتے ہیں کہ ان دونوں رہنماؤں کی آپسی کھینچ تان نے اس امن پسند علاقہ کو بارود کے ڈھیر پر لاکر کھڑا کر دیا ہے اور رہی سہی کسر آپس کی کیشدگی پوری کر رہی ہے۔


لاوڑ کے سنیل کمار کا کہنا ہے کہ ’’ماوی میرا کا واقعہ آئندہ ہونے والے پنچایت انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے انجام دیا گیا ہے اور آگے بھی الیکشن تک اس طرح کے کئی واقعات پیش آنے کا اندیشہ ہے۔ اتل پردھان گوجر ہیں اور ان کی اہلیہ پہلے ضلع پنچایت صدر رہ چکی ہیں۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم ان کے طاقتور حریف ہیں۔ وہ گوجروں کو مائل کرنے کے لئے انہیں فروغ دے رہے ہیں، ہو سکتا ہے تازہ معاملہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہو‘‘۔

ماوی میرا گاؤں کے یونس ملک گوجروں سے جھگڑے کے بعد دلبرداشتہ ہیں اور انہوں نے اپنے مکان پر برائے فروخت کا پوسٹر چسپاں کرلیا ہے۔ یونس نے فون پر بتایا کہ وہ بہت تکلیف میں ہیں اور ان کا دل رو رہا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا لیکن سنگین دفعات عائد نہیں کیں، لہذا ان کا کچھ نہیں بگڑے گا اور وہ گاؤں میں شیر بن کر گھومتے رہیں گے۔


معاملہ کی ایف آئی آر بھی یونس نے ہی درج کرائی تھی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’لوگ سمجھوتہ کے لئے دباؤ بنا رہے ہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں رہنا تو یہیں ہے۔ یہ پیسے والے کچھ گوجروں کی کھلی غنڈہ گردی ہے۔ کل ان کے ساتھ ایک لیڈر تھا، آج دوسرا لیڈر ان کے ساتھ ہے۔ گاؤں میں دلت اور سینی بھی رہتے ہیں لیکن سب پیار و محبت سے زندگی گزارتے ہیں۔ ہم تو کل بھی پٹ رہے تھے، آج بھی پٹ رہے ہیں۔ یوگی جی کہتے ہیں کہ صوبہ سے غنڈوں کا صفایا کر دیا گیا ہے لیکن یہ غنڈے کیوں موجود ہیں جو گھروں پر حملہ کر رہے ہیں، پتھر مار رہے ہیں اور گولی چلا رہے ہیں۔ اوپر سے پولیس بھی ان کے خلاف معمولی دفعات میں مقدمہ درج کر رہی ہے۔‘‘

ماوی میرا گاؤں کے سلیم اختر کا کہنا ہے کہ ، ’’آپ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ مت کہیے بلکہ یہ کہیے کہ ایک طرف بااثر دبنگ غنڈے ہیں اور دوسری طرف بے یار و مدد گار کمزور لوگ ہیں جن کی انتظامیہ بھی نہیں سن رہی۔ ان دبنگوں کو لگتا ہے کہ ان کے سامنے کسی نے زبان کھولنے کی ہمت کیسے کی! جو بولا اسے سبق سکھایا جانا چاہیے! کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین اپنے یہاں سے نقل مکانی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔‘‘


گھر پر نقل مکانی کا پوسٹر چسپاں کرنے والوں میں سے ایک زبیر ملک نے کہا، ’’وہ لوگ آئے اور ہمارے گھروں پر ہمارے ساتھ مار پیٹ کر کے چلے گئے۔ وہ گولی چلا رہے تھے، پتھر بازی کر رہے تھے اور پولیس ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔ مقدمہ درج کیا گیا تو گولی چلانے اور گھروں پر حملہ کرنے کی دفعات غائب ہیں۔ ہوائی فائرنگ کی بات کی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فیصلہ ہو جائے لیکن اب ہم اس گاؤں میں نہیں رہیں گے۔‘‘

زبیر نے مزید کہا، ’’متاثرین کو حملہ آوروں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں، کیا پھر بھی پولیس اس طرح کی کارروائی کرتی! یہ ایک معاملہ نہیں ہے، یہاں مسلمانوں کو دب کر رہنا پڑ رہا ہے۔ قبرستان کے ایک معاملہ میں قانون کو بالائے طاق رکھ کر ہمارا استحصال کیا گیا۔ گزشتہ حکومت میں بھی ہمارا استحصال ہوا اور سیاسی رہنما، انتظامیہ اس وقت بھی دبنگوں کے ساتھ تھی، ہماری کوئی سماعت نہیں ہوتی۔‘‘


دورالا کے انسپکٹر انچارج کرن پال سنگھ بتاتے ہیں کہ متاثرین کو فوراً تھانہ پولیس کو مطلع کرنا چاہیے تھا مگر وہ پہلے اعلیٰ افسران کے پاس گئے۔ ہم نے مقدمہ درج کیا ہے۔ پنچایت انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے واقعہ کو علیحدہ رنگ دیا جا رہا ہے۔ یہ قرض کی ادائیگی پر ہونے والا جھگڑا ہے۔ یہ کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہے اور ہم کشیدگی ہونے بھی نہیں دیں گے۔ امن و امان اور ہم آہنگی کے ماحول کو برقرار رکھنا ہماری اولین ترجیح ہے۔

لاوڑ کی چیئرپرسن کے شوہر ہارون انصاری نے کہا، ’’لاوڑ میں کبھی کوئی کشیدگی نہیں ہوئی، لیکن کچھ سالوں سے ملحقہ گاؤں میں ہونے والے جھگڑوں کو فرقہ وارانہ کشیدگی کا رخ دیا جانے لگا ہے، اب پنچایت انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے ایسا ہو رہا ہے۔ یہاں گوجر اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ یہ ایک معمولی واقعہ ہے۔ دبنگئی اور غنڈہ گردی تو کی گئی ہے لیکن اسے اقلیتی دشمنی کی بنا پر ہونے والا حملہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کچھ گوجروں نے بھی اس واقعہ پر مذمت کی ہے۔ یہاں ایسے جھگڑے ہوتے ہیں تو ان میں فیصلہ بھی ہو جاتا ہے۔ 2013 کے بعد سے یہاں اس طرح کے جھگڑے بڑھے ہیں ورنہ صدیوں سے سبھی آپس میں مل جل کر رہتے آ رہے ہیں۔‘‘


دورالا کے سی او سنجیو دیکشت نے کہا کہ متاثرہ محمد یونس کی تحریر پر 12 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس کے کسی طرح کے دباؤ میں کام کرنے کی بات سراسر غلط ہے۔ ہم یقینی طور پر کارروائی کریں گے۔ کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انتظامیہ بالکل غیر جانبدارانہ طور پر کام کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔