ہاشم پورہ قتل عام: متاثرین نے کہا ’ادھورا ہے انصاف‘

منہاج نے کہا ’’زیرتعلیم بچوں سے ہاتھ کھڑے کرنے کو کہا گیا، بچوں نے سمجھا کہ شاید انہیں چھوڑ دیں گے، لیکن سب سے پہلے انہیں کو مارا گیا۔‘‘ اسی کے بعد سے ہاشم پورہ کے لڑکوں نے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا۔

تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
user

آس محمد کیف

میرٹھ: ہاشم پورہ محلہ شہر میرٹھ کے وسط میں واقع ہے، یہاں مشہور شاہ پیر مزار کے سامنے حفیظ میرٹھی روڈ پر تقریباً 4 فٹ کی ایک گلی ہے جو پوری طرح سے بے ترتیب نظر آتی ہے۔ گلی کے باہر گلزار احمد (43) کہتے ہیں ’’31 سال سے جن کے ذہن تباہ ہو چکے ہوں وہ اپنے گھروں کی بناوٹ اور گلیوں کے رکھ رکھاؤ پر کیا دھیان دیں گے!‘‘

گلی کے اندر داخل ہوتے ہی ایک کیرانے کی دکان ہے جسے 80 سالہ جمال الدین چلاتے ہیں، جمال الدین کی دکان گھر کے ہی ایک حصہ میں بنی ہوئی ہے۔ کسی بھی گلی کی پہلی دکان فائدہ مند ہوتی ہے لیکن یہ بات ان کے لئے خسارہ والی ثابت ہوئی۔ 31 سال قبل 22 مئی کو سب سے پہلے انہیں کے بیٹے کمال الدین (19) کو پی اے سی کے جوانوں نے اٹھایا، کمال الدین کی شادی کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا۔ جمال الدین اپنے بیٹے کی دولہا والی تصویر برآمدے میں کھانے کی میز پر رکھتے ہیں اور اسے غور سے دیکھتے رہتے ہیں۔ جمال الدین کو اس بات کا بے حد ملال ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی لاش کو خود دفن بھی نہیں کر سکے۔ عین عید کے دن ان کے بیٹے کے خون آلودہ کپڑے ان کے گھر پہنچے تھے۔

دہلی ہائی کورٹ کے ہاشم پورہ سانحہ پر آئے فیصلہ کے بعد ایک مرتبہ پھر ہاشم پورہ میں ہلچل ہے، یہاں خاموشی تو ہے لیکن سکون نہیں۔
ہاشم پورہ قتل عام: متاثرین نے کہا ’ادھورا ہے انصاف‘

پی اے سی کی طرف سے ہاشم پورہ میں اترپردیش کا سب سے گھناؤنا ’سرکاری قتل عام‘ انجام دیا گیا تھا جس میں 43 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس قتل عام کا طریقہ کار اتنا خوف ناک تھا کہ آج بھی سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو پہلے چن چن کر ایک ٹرک میں بھرا گیا، پھر وہاں سے تقریباً 30-40 کلومیٹر دور واقعہ مراد نگر کی گنگ نہر پر لے جاکر انہیں گولی مار دی گئی۔ 43 نوجوانوں کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی لیکن 5 افراد ایسے بھی تھے جنہیں مردہ جان لیا گیاتھا، لیکن وہ بچ نکلے۔ دیگر گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کو جیل میں بھیج دیا گیا۔ عدالت نے اب 19 پی اے سی اہلکاروں کو قصور وار قرار دیا ہے۔ ان میں 3 اہلکاروں کی موت ہو چکی ہے اور بقیہ 16 کو اب عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

جمال الدین نے کہا، ’’پی اے سی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی تو گئی ہے، لیکن دل کو سکون نہیں ملا ہے، دل اب بھی بے چین ہے۔ یہاں ہندو اور مسلمان سبھی رہتے ہیں لیکن اس دن فورس نے چن چن کر مسلم لڑکوں کو ہی اٹھایا۔ میرے بیٹے کو سب سے پہلے اٹھایا گیا کیوںکہ ہمارا گھر گلی میں سب سے پہلے پڑتا ہے۔‘‘

ہاشم پورہ قتل عام: متاثرین نے کہا ’ادھورا ہے انصاف‘
ہاشم پورہ میں نظام و عدلیہ پر بھروسہ کا عالم یہ ہے کہ چنندہ لوگوں کو چھوڑکر متاثرہ خاندانوں کو آج میڈیا کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوا کہ اس معاملہ پر عدالت نے کوئی فیصلہ سنایا ہے۔

زرینہ (68) نے اس دن اپنے شوہر، جیٹھ اور بیٹے کو کھو دیا تھا، وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں اخبار والوں نے بتایا ہے کہ 16 سپاہیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اچھی بات ہے سزا ہوئی ہے لیکن ہمیں یقین نہیں کہ وہ جیل جائیں گے، ہمیں تو عدالت نے بلایا ہی نہیں۔ ان کے (پی اے سی کے جوان) ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر ہمارے سامنے جیل لے کر جائیں، انہیں پھانسی ہو، ان کے گھر والے بھی اس تکلیف سے گزریں جیسے ہم نے سہی ہیں تو ہمارے کلیجوں کو کچھ ٹھنڈک محسوس ہوگی۔ ‘‘

جس وقت قتل عام ہوا تھا زرینہ 37 سال کی تھیں، شوہر اور جیٹھ کو ان کی آنکھوں کے سامنے پی اے سی والے اٹھا لے گئے تھے جبکہ بیٹا پڑوس کی گلی میں ایک رشتہ دار کے یہاں تھا وہیں سے اٹھالیا گیا۔

ہاشم پورہ قتل عام: متاثرین نے کہا ’ادھورا ہے انصاف‘

اسلام الدین (49) ہاشم پورہ کے متاثرین کے لئے بنائی گئی ’انصاف کمیٹی‘ کے رکن ہیں۔ ان کے 13 سالہ بھائی نظام الدین کو بھی پی اے سی کے جوان ٹرک میں اغوا کر کے لے گئے تھے۔ وہ کاغذوں میں الجھے رہتے ہیں، کچھ سوچتے رہتے ہیں اور اکثر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ انہیں کس کاغذ کی تلاش ہے۔

اسلام الدین کہتے ہیں، ’’افسروں کی ذہنیت میں تبدیلی نہیں آئی ہے، اب وہ معاوضہ دینے میں رخنہ اندازی کر رہے ہیں، پی اے سی کے جوانوں نے تو ایک دن قتل عام کیا تھا لیکن افسروں کا رویہ ہر روز ہمارا قتل کرتا ہے۔ لیکن میں آخری دم تک لڑوں گا، ہمت نہیں ہاروں گا۔ ‘‘ اسلام الدین ان 7 خاندانوں میں سے ایک ہیں جن کے کسی رکن کا قتل کیا گیا، لیکن معاضہ ابی تک نہیں دیا گیا۔

اسلام الدین 1987 میں ملی 20-20 ہزار معاضہ کی رسید دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بھائی کی لاش نہیں ملی، بس کپڑے ہی مل سکے، اس لئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لئے غازی آباد اور مراد نگر کے دھکے کھانے پڑے۔ افسران نے قطعی تعاون نہیں کیا۔ اسلام الدین کہتے ہیں ’’اس چکر میں ہم برباد ہو گئے اور کاروبار تباہ ہو گیا۔ ‘‘

ہاشم پورہ کو انصار گلی بھی کہا جاتا ہے اور مارے گئے افراد زیادہ تر انصاری برادری سے ہی وابستہ تھے۔ وہ سبھی غریب بنکر تھے اور کچھ باہر سے آنے والے مزدور بھی تھے۔ عدالت نے جن 5 عینی شاہدین کی گواہی پر فیصلہ سنایا ہے ان میں سے ایک منہاج الدین دربھنگہ کے رہنے والے ہیں۔ منہاج اس دن تین گولیاں کھا کر بھی کرشمائی طریقہ سے بچ گئے تھے۔ منہاج کہتے ہیں ’’قاتل کی سزا صرف موت ہے، انہیں پھانسی ہونی چاہیے۔ ‘‘ اپنے پیر اور کمر پر لگی گولی کے زخم کے نشان دکھاتے ہوئے منہاج نے مزید کہا، ’’انہوں نے ہمیں مارنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی بلکہ انہوں نے گولی مار کر نہر میں پھینک دیا۔ انہوں نے تو سوچ لیا تھا کہ ہم مر گئے لیکن اللہ نے ہمیں بچا لیا۔ ہمارے ساتھ 43 افراد کو مار دیا گیا۔ ‘‘

منہاج نے بتایا، ’’پی اے سی کے جوان ہاتھوں کو پکڑ کر دیکھ رہے تھے کہ کون طاقت ور ہے اور کون کمزور۔ جو کمزور تھے انہیں جیل بھیجا گیا اور جو طاقت ور تھے انہیں قتل کرنے کے لئے نہر پر لے جایا گیا۔‘‘

منہاج کہتے ہیں ’’پہلے کہا گیا کہ جو زیر تعلیم ہیں وہ ہاتھ کھڑے کر لیں، بچوں نے سمجھا کہ شاید انہیں چھوڑ دیا جائے گا، لیکن سب سے پہلے انہیں بچوں کو گولی ماری گئی۔ ‘‘ یہیں کے رہائشی جاوید (34) کے مطابق ’’اب یہاں کے لڑکوں نے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا ہیے۔ انہیں لگتا ہے کہ پڑھائی سے صرف نقصان ہوتا ہے۔ ‘‘

گلی میں کچھ گھروں کی دیواروں پر ابھی تک گولیوں کے نشان موجود ہیں۔ واجد (42) کہتے ہیں ’’آپ دیواروں کی بات کرتے ہیں، نشانات تو لوگوں کے جسم اور دلوں پر بھی موجود ہیں۔ آج 31 سال ہو گئے ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے لوگوں کو آخر مارا کیوں گیا تھا۔‘‘ ریاض الدین (56) کے مطابق شاید حکومت مسلمانوں کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔

ہاشم پورہ کی اس گلی میں کچھ لوگ مقامی رکن پارلیمنٹ راجندر اگروال کے اس بیان پر بھی بحث کر رہے ہیں جو ایک مقامی اخبار میں شائع ہوا ہے۔ بیان میں راجندر اگروال نے کہا کہ پی اے سی نے اس دن اکثریتی طبقہ کی حفاظت کی تھی ورنہ بھاری قتل عام ہوتا۔ اس پر ریاض الدین کا کہنا ہے کہ ہاشم پورہ کے چاروں جانب اکثریتی طبقہ کی آبادی ہے جو تعداد میں اقلیتی طبقہ سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’خطرہ تو ان سے ہمیں ہے۔‘‘

اسلام الدین کے مطابق جب ہاشم پورہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو ہیلی کاپٹر تین دن تک منڈلاتا رہا تھا۔ جمال الدین قتل عام کے لئے اخباروں کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے محلہ کی شبیہ خطرناک بنا دی گئی تھی اسی کے رد عمل میں یہ قتل عام ہوا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Nov 2018, 8:09 PM
/* */