ماب لنچنگ کے خلاف جھارکھنڈ اسمبلی کی قانون سازی کا مولانا محمود مدنی نے کیا استقبال

ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جمعیۃ شروع سے ہی اس طرح کے قانون بنانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے، اس کے مرکزی و ریاستی وفود نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کے سامنے اس کا مطالبہ کیا تھا۔

مولانا محمود مدنی، تصویر سوشل میڈیا
مولانا محمود مدنی، تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے جھارکھنڈ اسمبلی کے ذریعہ ماب لنچنگ کے انسداد سے متعلق قانون سازی کا استقبال کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ قانون کے ذریعہ سے سماجی اور معاشی طور سے کمزور طبقات کے اندر اعتمادپیدا ہوگا اور ملک میں برادرانہ ہم آہنگی اور امن و امان کے قیا م میں مدد ملے گی۔

آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق جمعیۃ علماء ہند شروع سے ہی اس طرح کے قانون بنانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے، اس کے مرکزی و ریاستی وفود نے میمورنڈم اور مکتوب کے ذریعہ جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کے سامنے پوری قوت سے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے ملک کی دوسری ریاستوں کو متوجہ کیا کہ وہ بھی موثر قانون کے ذریعہ ایسے گھناؤنے اعمال پر روک لگائیں۔


مولانا مدنی نے کہا کہ جھارکھنڈ میں حال میں ماب لنچنگ کے واقعات کافی زیادہ رونما ہوئے ہیں، اسی طرح ملک کے دوسرے حصہ بھی کافی متاثر ہیں۔زیادہ تر ایسے واقعات، مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف رونما ہوتے ہیں اور پھر مشتعل و جنونی بھیڑ کے ذریعہ ویڈیو بنا کر اس کی نمائش بھی کی جاتی ہے تاکہ خوف کا ماحول پیدا کیا جائے، متاثرہ کمیونٹی کے ارکان محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت اور کہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مخصوص برادریوں کو نشانہ بنانا ملک کے سماجی تانے بانے کو تباہ کرنے کا باعث بنتا جارہا ہے۔ ہجومی تشدد کے مسئلے کو صرف بھیڑ کے تناظر سے نہیں بلکہ متاثرہ شخص کے تناظر سے دیکھنا چاہیے کہ اس کو اور اس کی کمیونٹی کو جس قدر ذلت اور بے بسی کا احساس دلایا جاتا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اسلامو فوبیا، نفرت اور پرتشدد ہجومی حملے کے خلاف ملک کے آئین کے دائرے میں جدوجہد کررہی ہے اورا سے ملک کی حفاظت اور ترقی کے تناظر میں نہایت ضروری سمجھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جن ریاستوں میں ماب لنچنگ کے خلاف قانون بناہے، ان کواپنے قانون کے حقیقی نفاذ کے لیے ماڈل بنانا چاہیے جس میں بالخصوص پولس انتظامیہ اور سرکاری جوابدہی کو یقینی بنایا گیا ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔