شاہین باغ میں بھی ہیں کئی ’شاہین باغ‘

شاہین باغ ویسے تو پوری دنیا میں مشہور ہو گیا ہے اور کئی شہروں میں بہت سارے ’شاہین باغ‘ سامنے آ گئے ہیں۔ لیکن خود شاہین باغ، جہاں مظاہرہ ہو رہا ہے، وہاں بھی چھوٹے چھوٹے کئی شاہین باغ دکھائی دیتے ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

شاہین باغ میٹرو اسٹیشن سے اترنے کے بعد وہاں سے مظاہرہ کی جگہ پہنچنے کے لئے ایک ’ای-رکشا‘ میں بیٹھتے ہی شاہین باغ کے مظاہرہ کی اہمیت کا احساس ہوا۔ ای رکشا میں پہلے ہی سے دو خواتین بیٹھی تھیں جو مظاہرہ میں شرکت کے لئے جا رہی تھیں۔ وہ کیسے مظاہرہ کے لئے وقت نکال پا رہی ہیں، گھر کی چابی کس کو دے کر آئی ہیں اور کیا کھانا پکا کر آئی ہیں اس پر تو وہ گفتگو کر ہی رہی تھیں، لیکن ان کی بات چیت سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ دونوں کو ہی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی کے تعلق سے ضروری معلومات ہے اور مظاہرہ کے مقصد سے بھی وہ اچھی طرح واقف نظر آ رہی تھیں۔ وزیر اعظم مودی اور میڈیا کے خلاف ان کا غصہ ان کی گفتگو سے ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ اس بات سے بھی ناراض تھیں کہ میڈیا میں یہ جھوٹی بات پھیلائی جا رہی ہے کہ مظاہرہ میں آنے والی خواتین کو پانچ سو روپے فی فرد دیا جا رہا ہے۔

ای رکشا چلانے والا اس بات سے تو خوش تھا کہ مظاہرہ کی وجہ سے اس کا کام بڑھ گیا ہے لیکن ٹریفک جام کو لے کر وہ پریشان تھا۔ کئی جگہ تین سے چار منٹ ٹریفک جام کے بعد ای رکشا والے نے مظاہرہ کے مقام کے قریب ہمیں اتار دیا۔ گلی سے مظاہرہ کے مقام پر پہنچنے پر جم غفیر نے استقبال کیا۔ ٹینٹ کے نیچے جہاں آگے کی جانب بہت ساری خواتین بیٹھی تھیں وہیں پیچھے موجود نوجوان آزادی کے نعرے لگا رہے تھے۔ جلسہ گاہ کی دائیں جانب چند سیڑھیوں پر چڑھنے کے بعد بند پڑی دوکانوں کے آگے پڑی خالی جگہ کے آگے کچھ بچے پینٹنگ کرنے اور سیکھنے میں مصروف نظر آئے۔ وہاں پر ایک انچارج کی شکل میں کام کر رہی ایک لڑکی جو پی ایچ ڈی انگلش کی طالبہ ہے وہ بچوں کو کاغذ اور رنگ فراہم کر رہی تھی، وہیں بچوں کی پینٹنگ لے کر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی نظر آ رہی تھی۔ بقول اس کے ’’جو خواتین مظاہرہ میں آ رہی ہیں ان کو اپنے بچوں کو ساتھ لانا مجبوری ہے کیونکہ وہ بچوں کو اکیلے گھر پر نہیں چھوڑ کر آ سکتی ہیں۔ اس لئے ہم ان بچوں کو یہاں کسی نہ کسی شغل میں مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بچے یہاں پینٹنگ میں خوب دلچسپی لیتے ہیں۔‘‘


دوسری جانب مظاہرین نے شاہین باغ کے ڈی ٹی سی بس اسٹاپ کو ایک لائبریری میں تبدیل کر دیا ہے جس میں جہاں بہت ساری کتابیں رکھی ہوئی ہیں وہیں نوجوان اپنی مرضی کی کتاب پڑھنے میں مصروف ہیں۔ جن بچوں کو اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں مل پاتی وہ اس کے باہر کھڑے ہو کر کتاب پڑھنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔


تھوڑا آگے چلیں گے تو دیکھیں گے کہ پچاس ساٹھ نوجوانوں کا ایک گروپ نعرے بازی کرتا نظر آئے گا۔ اس کے آگے انڈیا گیٹ کا ایک مجسمہ بنایا گیا ہے جس میں ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں جن کا شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں انتقال ہو گیا ہے۔ اس کے آگے ایک اور گروپ آزادی کے نعرے لگاتا ہوا نظر آئے گا، جو بیچ بیچ میں مودی اور امت شاہ کے خلاف بھی نعرے لگاتے ہیں۔


شاہین باغ میں بھی ہیں کئی ’شاہین باغ‘

وہیں پر ایک بڑا سا ہندوستان کا نقشہ لگا ہوا ہے جس کے ایک جانب ہندی میں اور دوسری جانب انگریزی میں لکھا ہے کہ ’ہم سی اے اے اور این آر سی کو مسترد کرتے ہیں۔‘ اس کے قریب ایک علامتی نظربندی کیمپ (ڈٹینشن کیمپ) بنا ہوا ہے۔ تین مقامات پر لوگ قومی پرچم کو ہاتھ میں لے کر تصاویر کھنچواتے ضرور نظر آئیں گے... ہندوستان کے نقشہ کے سامنے، انڈیا گیٹ کے مجسمہ کے سامنے اور علامتی نظر بندی کیمپ کے اندر۔ اسٹیج کے پیچھے جہاں دور سے آنے والے مظاہرین کے لئے ناشتہ کا سامان رکھا ہوا نظرآئے گا وہیں مفت طبی مرکز بنا ہوا نظر آئے گا جہاں ضرورت پڑنے پر فوری طور پر طبی امداد فراہم ہو سکتی ہے۔


شاہین باغ جو شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا مرکز بن چکا ہے اور جس کی نقل میں پورے ہندوستان میں جگہ جگہ شاہین باغ بنتے نظر آ رہے ہیں، وہیں خود شاہیں باغ کے مظاہرہ گاہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہاں کئی شاہین باغ موجود ہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر لوگ اپنے اپنے انداز میں مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس سے جہاں کئی نوجوانوں کی پوری شخصیت میں تبدیلی آئی ہے اور ان کا اسٹیج پر آنے کا خوف ختم ہو گیا ہے اور یہ مظاہرہ ان کے لئے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے، وہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار کو بہت فروغ مل رہا ہے۔ اس جگہ پر جہاں چائے، مونگ پھلی، ریوڑی، اُبلے ہوے انڈے، پوری کچوری کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں وہیں آس پاس کی گلیوں میں چائے کی دوکانوں پر زبردست بھیڑ نظر آئے گی اور جگہ جگہ سردی کے کپڑے بیچنے والوں کی دوکانوں کے باہر خوب بھیڑ نظر آئے گی۔ جو بھی ہے اس یوم جمہوریہ پر آزادی اور جمہوریت کا زیادہ احساس ہوا کیونکہ یہ آزادی ہی ہے اور اس جمہوریت کا آئین ہی ہے جس نے یہاں حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق فراہم کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Jan 2020, 4:11 PM
/* */