فتوی پر روک کے حکم پر سپریم کورٹ کا اسٹے، محمود مدنی کا اظہار اطمینان

مولانا محمود مدنی نے کہا ’’اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ’حیرت انگیز ‘حکم کے بعد پورے ملک میں بے چینی تھی اور ملک میں موجود ہزاروں کی دارالافتاء اور مذہبی اداروں کے متاثر ہونے کا خطرہ محسوس تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے فتوی اور فرمان جاری کرنے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے پر آج روک لگادی۔ اس معاملے میں عرضی گذار جمعیت علماء ہند نے عدالت عظمی کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے گذشتہ 30 اگست کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی مذہبی تنظیم، ادارہ، مقامی پنچایت اور عوامی گروپ فتوی یا فرمان جاری نہیں کرے گا۔

جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس دیپک گپتا پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے والوں کو نوٹس جاری کرکے اس پر جواب طلب کیا ہے۔ سینئر وکیل راجو رام چندرن نے عرضی گذار جمعیت علماء ہند کی طرف سے پیروی کی۔ ان کے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمی نے نوٹس جاری کیا اور ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگادی۔

خیال رہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ فتوی اور فرمان غیر آئینی ہیں اور فرد کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔ کارگذار چیف جسٹس راجیو شرما اور جسٹس شرد کمار شرماکی بنچ نے ہردوار کے نزدیک ایک گاوں میں نابالغ کے ساتھ عصمت دری کے بعد جاری فرمان کے بعد اس پر پابندی لگادی تھی۔

جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ’حیرت انگیز ‘حکم کے بعد پورے ملک میں بے چینی محسوس کی جارہی تھی۔ اس امتناعی حکم سے ملک میں موجود ہزاروں کی تعداد میں دارالافتاء اور مذہبی اداروں کے متاثر ہونے کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا۔

محمود مدنی نے بتایاکہ معاملے کی سنجیدگی کے مدنظرگذشتہ ماہ جمعیت علماء ہند نے مذکورہ فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی سماعت آج ہوئی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے فتوی پر پابندی سے متعلق اتراکھنڈ کے فیصلے پر اسٹے کا حکم جاری کیا ہے۔
سینئر وکیل راجو رام چندر ن نے عدالت میں استدلال کیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ دستو ر ہند کی دفعہ 26اور وشوا لوچن مدان کیس بنام حکومت ہند میں بذات خود سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید خلاف ورزی ہے۔ دستور ہند کی دفعہ 26(B) میں ہر ایک کو اپنے مذہبی مسائل میں خود کے انتظام کا حق دیا گیا ہے،لہذا اسے کوئی بھی عدالت ختم نہیں کرسکتی۔نیز دستورکی دفعہ 141یہ واضح کرتی ہے کہ کسی عدالت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلے دینے کا حق نہیں ہے۔

عدالت عظمی سے اس بات کی بھی شکایت کی گئی کہ ہائی کورٹ نے پنچایت کے فرمان کو ’فتوی‘سمجھنے کی غلطی کی ہے اور اس سلسلے میں صرف ہندی کے ایک اخبار کو بنیاد بنا کر فیصلہ دے دیا گیا۔حالاں کہ اخبار کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ محض پنچایتی فرمان ہے اور اس کا فتوی سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فتوی کسی پنچایت سے نہیں بلکہ دارالافتاء یا کسی اہل مفتی کے ذریعہ ہی دیا جاتاہے اور اس کی حیثیت صرف پوچھنے والے کی شرعی مسئلہ پر رہ نمائی تک محدود ہے۔

مولانا محمود مدنی نے اسٹے ملنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے کونے کونے میں دارالافتاء دینی رہ نمائی کا فریضہ انجام دے رہیں۔وہ صرف سائل کے جواب میں مذہبی رہ نمائی کرتے ہیں۔ یہ بات صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ فتوی کوئی فرمان نہیں ہے۔انھوں نے عدالت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری اسٹے کا حکم جاری کیا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس معاملے میں مثبت اور تعمیری فیصلہ سنائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Oct 2018, 4:09 PM
/* */