مہاراشٹر: مخلوط حکومت کا پہلا بجٹ اور بی جے پی کی بدعنوانی

بی جے پی کی سابقہ حکومت نے ترقی کا کچھ ایسا ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ گجرات ماڈل بھی ماند پڑ گیا تھا، لیکن ان پروجیکٹس کے پردے میں ایسی بدعنوانیاں ہوئیں کہ CAG بھی اپنی تشویش کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

مہاراشٹر کی حکومت نے گزشتہ کل 2020-21 کا اپنا پہلا بجٹ پیش کیا کہ اس کے پردے سے بدعنوانی کے کچھ ایسے نیولے جھانکنے لگے، جنہیں ابھی تک شفافیت اور ایمانداری کی رسی میں باندھ کر رکھا گیا تھا۔ سابقہ بی جے پی حکومت نے ریاست بھر میں ترقی کا کچھ ایسا ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ اس کے شور میں گجرات کا ڈھول بھی ماند پڑتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔ ممبئی، پونے اور ناگپور جیسے شہروں میں کئی کئی فیس کے میٹرو ریل پروجیکٹ، ریاست بھر میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ’جل یوکت شیوار پروجیکٹ‘ کے تحت کنووں کی کھدائی، نئی ممبئی میں پرائم منسٹر ہاؤسنگ پروجیکٹ اور عین سمندر میں چھترپتی شیواجی کے مجسمے اور یادگار کی تعمیر جیسے کئی پروجیکٹ کا تذکرہ سابقہ حکومت کے وزراء اپنی حصولیابی کے طور پر پیش کرتے رہے، مگر آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ ان پروجیکٹس کے پردے میں کچھ ایسی بدعنوانیاں ہوئیں کہ کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل CAG بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا۔

ان پرجیکٹس میں بدعنوانی کی بازگشت تو گزشتہ کئی سالوں سے سنائی دینے لگی تھی اور سیاسی حلقوں میں انہیں 40 فیصد کمیشن کا پروجیکٹ کہا جانے لگا تھا، لیکن اس کا انکشاف گزشتہ سال اگست میں ہوا جب این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک اور ریاستی کانگریس کے ترجمان سچن ساونت نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اس وقت کی حکومت کو ان پروجیکٹس میں صریح طور پر بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا 26 اور29 اگست 2019 کو مذکورہ دونوں لیڈران نے اپنی پریس کانفرنس میں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر راست طور پر بی جے پی حکومت پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا تھا اور انہیں ثبوت وشواہد کی بنیاد پر انہوں نے اس کی شکایت کیگ سے بھی کی تھی۔ جنوری 2020 میں کیگ نے ان پروجیکٹس میں سے پرائم منسٹر ہاؤسنگ اسکیم اور میٹرو کار شیڈ کی تعمیر کے ٹینڈرنگ کے عمل میں بدعنوانی ہونے کا امکان ظاہر کیا، جس کے بعد بہت جلد یہ افسوسناک خبر بھی آگئی کہ ان دونوں پروجیکٹس میں تقریباً 2ہزار کروڑ روپیے کی بدعنوانی ہوئی ہے۔ جبکہ کانگریس ذرائع کے مطابق بدعنوانی کی یہ رقم 14ہزار کروڑ روپئے سے متجاوز ہے۔


میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق فڑنویس حکومت کے دور میں بڑے بڑے پروجیکٹ کے ٹینڈرنگ کے شرائط وضوابط میں حسبِ ضرورت تبدیلی کرتے ہوئے ایسے کنٹریکٹرس کو ٹھیکے دیئے گیے جو نہ حکومت کے طے کردہ اصولوں پر پورے اترتے تھے اور نہ ہی انہیں اتنے بڑے پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہونچانے کا تجربہ تھا۔ مثال کے طور پر نئی ممبئی میں تعمیر ہونے والے پرائم منسٹر ہاؤسنگ پروجیکٹ کے تحت 89ہزار 771مکانات تعمیر کرنے کی تجویز تھی۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل وزیراعظم نریندرمودی نے کلیان ڈومبیولی میں اس کا افتتاح بھی کردیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے ٹینڈر جاری کرنے کے لئے سڈکو کے ڈپٹی چیئرمین ومینیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ ہوئی پہلی میٹنگ میں خودچیف انجینئر نے اس پروجیکٹ کے بڑے ہونے کی بنیاد پر اسے آٹھ سے نو شعبوں میں تقسیم کرنے اور ہرشعبے کے پروجیکٹ کی قیمت ایک ہزار کروڑ روپئے سے 16 سو کروڑ روپئے رکھنے کی تجویز دی تھی، لیکن دوسری میٹنگ میں اس تجویز میں حیرت انگیز طور پر تبدیلی کرتے ہوئے حکومت کے پسندیدہ کنٹریکٹرس کو اس میں شامل کرنے کے لئے اس پورے پروجیکٹ کو محض چار شعبوں میں تقسیم کیا گیا جبکہ تیسری میٹنگ میں ان چار شعبوں کی ازسرِ نوتشکیل کر کے ہر شعبے کے لئے یکساں فنڈ یعنی کہ ساڑھے تین ہزار کروڑ روپئے طے کیا گیا۔

اس پروجیکٹ کے ٹینڈرنگ میں مقابلہ آرائی دکھانے کے لیے ایک ناگ ارجن کنسٹریکشن کمپنی کو بھی شامل کیا گیا تھا، لیکن چونکہ اسے اس پروجیکٹ میں شامل نہیں کرنا تھا، اس لیے اسے ممبئی کے آرے کالونی میں تعمیر ہونے والے میٹرو کارشیڈ کے پروجیکٹ کا کنٹریکٹ دیا گیا اس کے لیے یہ کیا گیا کہ دیگر چار کمپنیوں کے ساتھ اسے بھی ٹینڈر بھرنے کے لیے کہا گیا اور شرائط وضوابط میں تبدیلی لاکر اس کے ٹینڈر کو نامنظور کردیا گیا۔ اس کے لیے میٹرو کارشیڈ کے ٹینڈر کے شرائط وضوابط بھی تبدیل کیے گیے کیونکہ ناگ ارجن کنسٹریکشن کمنپی حکومت کے طے کردہ معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ مذکورہ کمپنی کو کنٹریکٹ دینے کے لیے ٹینڈر کے شرائط میں ایک دو بار نہیں بلکہ 13 بار تبدیلی کی گئی اور پھر بھی جب کام نہیں بنا تو حکومت کی جانب سے ترمیمی سرکیولر جاری کیا گیا اور مذکورہ کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا۔ کانگریس نے جب اس کے بارے میں حکومتی ادارے ایم ایم آرڈی اے سے وضاحت طلب کیا تو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا اور اسے حکومت کا فیصلہ قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ پھر جب اس کی شکایت کیگ سے کی گئی تو اس نے اس پورے پروجیکٹ میں ہی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا امکان ظاہر کیا


سی اے جی رپورٹ کا مشاہدہ کرنے کے لئے فائل کو درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کریں:
CAG Report.pdf
download

یہی کچھ حال اس شیواسمارک کا بھی ہے جس کا ’جل پوجن‘ تین سال قبل پردھان سیوک نے کردیا تھا۔ لیکن لطف کی بات ہے کہ جب شیواجی کے نام پر بی جے پی پورے ریاست میں پولرائزیشن کی سیاست کرتی رہی، ان کی ہی یادگار قائم کرنے کے نام پر بغیر کسی تعمیر کے کروڑوں روپیے ڈکار لیے۔ اس پروجیکٹ میں بدعنوانی کی تفصیل کافی دلچسپ ہے اورموجودہ حکومت نے اس کی تفتیش کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے لیے ایل اینڈ ٹی کمپنی نے 3826 کروڑ روپیے کا ٹینڈر بھرا تھا۔ حکومت نے اس کپمنی سے بارگیننگ کرتے ہوئے یہ رقم ڈھائی ہزار روپئے تک کردی جبکہ مجوزہ پروجیکٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے مجسمے کی بلندی اور ورک ایریا کم کردیا۔ لطف کی بات یہ ہے اس پروجیکٹ میں کیگ نے بدعنوانی کا امکان بعد میں ظاہر کیا تھا، پہلے اس پروجیکٹ سے منسلک افسران ہی اس پر سوالیہ نشان لگا چکے تھے۔ کیگ نے اپریل سے مئی 2019 تک اس پروجیکٹ کا آڈیٹ کیا اور اکتوبر میں اپنی رپورٹ پی ڈبلیو پی کو روانہ کردی اورجس میں صریح طور پربدعنوانی ہونا ظاہر کیا ہے۔ چونکہ ابھی اس معاملے کی تفتیش جاری ہے، اس لیے بہت ممکن ہے اس پورے پروجیکٹ کا نصف حصہ ہی بدعنوانی کا لقمہ بنا ہو۔

لیکن یہ تو ٹینڈرنگ کے عمل میں ہوئی بدعنوانیاں ہیں، جن کی ریاست کے نائب وزیراعلی اجیت پوار نے تفتیش کرانے کاعندیہ ظاہر کیا ہے۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے جاری ممبئی، پونے وناگپور میٹرو ریل پروجیکٹ میں کس قدر بدعنوانیاں ہوئی ہیں؟ اس کا اندازہ ابھی تک حکومت نے نہیں لگایا ہے۔ لیکن اندرون خانہ خبر یہ ہے کہ اس کی بھی درپردہ تفتیش جاری ہے اور یقین ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس میں بھی ایک بہت بڑی بدعنوانی سامنے آئے گی۔ ’جل یوکت شیوار‘ پروجیکٹ کو سابق وزیراعلیٰ دیوندر فڑنویس کا ڈریم پروجیکٹ قرار دیا جاتا رہا ہے، جس کی بنیاد پر پردھان سیوک نے مہاراشٹر میں اپنے ایک پروگرام میں 60ہزار سے زائد گاؤں سے پانی کی قلت کو دور کیے جانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس پروجیکٹ کی سچائی یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کی پوری لاگت کو پیسوں کا زیاں قرار دیا جارہا ہے اور موجودہ حکومت نے اس کو فوری طور پر بند کردیا ہے۔ ان پروجیکٹس کی بدعنوانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ اس کا اندازہ تو اس کی تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن اس سچائی کو کیا کہا جائے کہ جب سے ریاستی حکومت نے ان کی تفتیش کرائے جانے کا اعلان کیا ہے، اس وقت سے ریاست میں ہمیشہ جنگ کی حالت میں رہنے والی بی جے پی کی آواز کچھ خاموش سی ہوگئی ہے۔ کیا بی جے پی کا کوئی لیڈر اس کی وجہ بتاسکے گا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */