لکھنؤ: سرد ہواؤں کے باوجود مظاہرین کی تعداد میں اضافہ

راجدھانی لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر جاری خواتین کا مظاہرہ چھٹے دن بھی جاری رہا، تحریک کار خواتین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

لکھنؤ: وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے سی اے اے کو کسی بھی صورت میں واپس نہ لینے کے اعلان کے بعد بھی شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف ریاستی راجدھانی لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر جاری خواتین کا مظاہرہ چھٹے دن بھی جاری رہا۔تحریک کار خواتین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

مختلف سماج، سیاسی و دیگر شعبہ ہائے حیات کے افراد نے جائے احتجاج پہنچ کر خواتین کو حوصلہ دے رہے ہیں۔ آج وکلاء کی کثیر تعداد بھی گھنٹہ گھر پہنچی اور سی اے اے کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا۔مظاہرے میں شامل وکلاء نے آئین کے تحفظ کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

مظاہرے میں بچے، بوڑھے، مرد، خواتین طلبہ و طالبات اور سبھی شعبہ ہائے حیات کے افراد شرکت کرکےرہے ہیں۔اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی اے اے کی مخالفت کررہے ہیں۔تحریک کاروں کے مطابق اس احتجاجی مظاہرے میں صرف مسلم ہی نہیں چامل ہیں بلکہ وہ تمام افراد جن کو لگ رہا ہے کہ ملک میں کچھ غلط ہورہا ہے سبھی سڑکوں پر ہیں۔


بچوں نے کاغذات پر ترنگا ،طالبات نے رنگولی بنا اور سی اے اے کی مخالفت میں غبارے اڑا کر اپنی مخالفت درج کرائی۔ بدھ کو احتجاج کے دوران جہاں میگسیسے ایوارڈ یافتہ سندیپ پانڈے نے چرخہ چلایا تو وہیں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے’ہون ‘کیا۔جائے احتجاج پر تاریخ کی ایک چھوٹی سے لائبریری بھی قائم کی گئی ہے جس میں مہاتما گاندھی،مولاناابوالکلام آزاد،چندر شیکھر آزاد جیسے عظیم شخصیتوں پر مبنی 50 سے زیادہ کتابیں رکھی گئی ہیں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

اس سے قبل تحریک کار خواتین پر دباؤ بنانے کے لئے پولیس کی جانب سے تقریبا 150 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔پولیس کی ایف آئی درج کرنے کی سبھی طبقات کے معروف شخصیتوں نے مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی اور احتجاج کرنے کا حق چھینے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

ریاستی راجدھانی میں تحریک کار خواتین پر پولیس کی یک طرفہ کاروائی کی بموجب خواتین ان سرد ہواؤں بھری رات میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ جائے احتجاج پر پولیس نہ ٹینٹ لگانے کی اجازت دے رہی ہے اور نہ ہی مائیک استعمال کی۔راتوں کو آس پاس کی لائٹیں بند کردی جاتی ہیں تو نگر نگم کے بیت الخلاء کو مقفل کردیا جاتا ہے۔باوجود اس کے خواتین کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔


یو پی میں گذشتہ دسمبر میں ہوئے احتجاجی مظاہروں میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور تقریبا 23 افراد کی جانیں گئی اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کی راتوں رات دبش اور نقصان کی تلافی کے نوٹس جاری کرنے کے بعد یو پی میں خوف کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔

اب خواتین نے اس کالے قانون کے خلاف مورچہ سنبھالا ہے اور کانپور ،پریاگ راج کے بعد لکھنؤ میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ خواتین کی قیادت میں کئے جانے والے ان مظاہروں کو ہر طبقے کی حمایت مل رہی ہے۔یو پی میں احتجاجی مظاہروں کو ختم کرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور ہر حربہ اپنا یا جارہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 22 Jan 2020, 9:30 PM