دوسرے مرحلے میں بھی ڈوبتی نظر آ رہی ہے بی جے پی کی کشتی، کم از کم 22 سیٹوں کا نقصان

لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کا ممکنہ ٹرینڈ بی جے پی کو خوفزدہ کرنے لگا ہے۔ اس مرحلہ میں بھی بی جے پی کو تقریباً 22 سیٹوں پر خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ انھیں اس پولرائزیشن کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کیونکہ وہ گراؤنڈ رپورٹ سے پریشان ہے۔ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کے ساتھ ہی دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کا ممکنہ ٹرینڈ بھی انھیں خوفزدہ کرنے لگا ہے۔ اس مرحلہ میں بھی بی جے پی کو تقریباً 22 سیٹوں پر خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ پہلے مرحلہ میں بھی اس کی تقریباً اتنی ہی سیٹیں کم ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔

دوسرے مرحلے میں چھتیس گڑھ کی جن دو سیٹوں پر بی جے پی گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں جیتی تھی، اس کے ووٹ فیصد کا فرق کافی کم رہا تھا۔ مہاسمند میں بی جے پی 0.11 اور کانکیر میں 3.46 فیصد ووٹوں کے فرق سے جیتی تھی۔ ایک دیگر سیٹ راج نند گاؤں میں گزشتہ اسمبلی انتخاب میں یہاں کی سات میں سے چھ سیٹوں پر کانگریس فتحیاب رہی تھی۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب کے اعداد و شمار تو یہی بتاتے ہیں کہ بی جے پی کو یہاں جیتنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

یہی حال جموں و کشمیر میں اودھم پور کا ہے۔ یہاں سے مرکزی وزیر جتیندر سنگھ بی جے پی امیدوار ہیں۔ گزشتہ مرتبہ وہ صرف 5.85 فیصد ووٹوں کے فرق سے فتحیاب ہوئے تھے۔ اس بار ان کے خلاف جس طرح کا ماحول ہے، یہاں ان کے پسینے چھوٹے ہوئے ہیں۔

اتر پردیش میں جس طرح پہلے مرحلے میں نوئیڈا، بجنور، میرٹھ، باغپت، مظفر نگر، سہارنپور، کیرانہ جیسی لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی کی ہوا بری طرح خراب دیکھنے کو ملی، اسی طرح دوسرے مرحلے میں میں بھی اس کے لیے راہ آسان نہیں ہے۔ کانگریس کے ساتھ ساتھ ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد اس مرحلہ میں بھی بی جے پی کو پریشان کیے رکھے گا۔ گزشتہ انتخاب کے ووٹ فیصد کی کچھ مثالوں سے بی جے پی کی آنکھیں کھل سکتی ہیں۔

دیکھا جائے تو نگینہ میں گزشتہ بار بی جے پی کو صرف 39 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ایس پی-بی ایس پی کا مشترکہ ووٹ شیئر 55 فیصد تھا۔ اسی طرح فتح پور سیکری میں بی جے پی کو 44.06 فیصد ووٹ ہی ملے تھے جب کہ ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اس وقت الگ الگ نہ لڑتے تھے 50.07 فیصد ووٹ حاصل کرتے۔ امروہہ میں بی جے پی کو 48.26 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ایس پی-بی ایس پی نے الگ الگ لڑا تھا۔ اگر مل کر لڑتے تھے 48.69 فیصد ووٹ حاصل کر لیتے۔

متھرا میں پچھلی بار ووٹ فیصد 53.29 تھا، اور اس بنیاد پر بی جے پی امیدوار ہیما مالنی سکون میں رہنے کی غلط فہمی پال سکتی ہیں۔ اس وقت ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی کا مشترکہ ووٹ فیصد 42.2 تھا۔ لیکن اس بار ہیما کو علاقے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کرنے کی پاداش میں ووٹر کی شکایت سننی پڑ رہی ہے اور یہ ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

درج فہرست ذاتوں کے لیے محفوظ دو سیٹوں یعنی آگرہ اور ہاتھرس پر بی جے پی نے اس بار اپنے امیدوار بدل دیے ہیں۔ یہ تبدیلی حیران کرنے والی اس لیے ہے کیونکہ دونوں ہی امیدواروں نے پچھلی مرتبہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ووٹوں کے فرق سے فتح حاصل کی تھی۔ اس فیصلے کا خمیازہ بی جے پی کو دوسرے مرحلے میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

بہار میں بھی راہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ بہار میں کانگریس-آر جے ڈی اتحاد سے تو بی جے پی مشکل میں ہے ہی، اسے اندرونی رنجش سے بھی نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ پورنیہ سے اودے سنگھ کانگریس امیدوار ہیں۔ پہلے وہ بی جے پی میں تھے لیکن اب کانگریس میں ہیں۔ اس علاقے میں ان کی ذاتی شہرت ہے اور کافی مضبوط شناخت ہے۔ 2004 کے انتخابات میں جبگ بی جے پی-جے ڈی یو کا بہار میں صفایہ ہو گیا تھا تب بھی اودے سنگھ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انھوں نے 2004 اور 2009 کے انتخابات میں بھی فتح حاصل کی تھی۔

بھاگلپور سیٹ پر 2014 میں محض 9 ہزار ووٹوں سے بی جے پی امیدوار سابق مرکزی وزیر شاہنواز حسین ہارے تھے۔ اس بار بی جے پی نے اتحاد میں یہ سیٹ جنتا دل یو کو دے دی۔ جنتا دل یو کا اپنا ہی اندازہ اس سیٹ پر فتح کو لے کر مشتبہ ہے۔ یہی حال قریب کی بانکا پارلیمانی سیٹ کا بھی ہے۔ یہاں بھی مرحوم مرکزی وزیر دگوجے سنگھ کی بیوی پتُل سنگھ گزشتہ انتخاب محض 10 ہزار ووٹ سے ہاری تھیں۔ لیکن بی جے پی نے یہ سیٹ بھی جنتا دل یو کو دے دی ہے۔ یہاں بھی بی جے پی کا ایک بڑا خیمہ اس فیصلے سے غیر مطمئن ہے۔

کشن گنج کانگریس کی مضبوط سیٹ تصور کی جاتی ہے۔ گزشتہ انتخاب میں بھی جنتا دل یو امیدوار اخترالایمان حالات سے واقف تھے، اس لیے انھوں نے نامزدگی کے بعد ہی کانگریس کی حمایت میں اپنی امیدواری چھوڑ دی۔ بغل کی کٹیہار سیٹ بھی بی جے پی کے لیے چیلنج ہے۔ کانگریس امیدوار کی شکل میں طارق انور کے میدان میں ہونے سے بی جے پی کی مشکلیں بڑھی ہوئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */