بہار اسمبلی انتخاب: این ڈی اے میں سیندھ لگا رہی ایل جے پی، کئی لیڈران پارٹی میں شامل

بہار میں سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ ٹکٹ کٹنے یا معاون پارٹیوں کے حصے میں سیٹ جانے کے بعد بغاوتی تیور اختیار کیے لیڈروں کے لیے اس وقت 'ایل جے پی' پناہ گاہ ثابت ہو رہی ہے۔

چراغ پاسوان، تصویر آئی اے این ایس
چراغ پاسوان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

بہار اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ریاست میں سیاسی جدوجہد کے مختلف نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ٹکٹ کٹنے یا معاون پارٹیوں کے حصے میں سیٹ جانے کے بعد بغاوتی رخ اختیار کرنے والے لیڈروں کے لیے اس وقت لوک جن شکتی پارٹی ایک بہترین پناہ گاہ اور سہارا بن رہی ہے۔ کئی بی جے پی لیڈران ایل جے پی میں شامل ہو گئے ہیں اور کئی بی جے پی-جے ڈی یو لیڈران ایل جے پی کے رابطے میں بھی ہیں۔ ایسے ماحول میں سیاسی ماحول پوری طرح گرم ہے اور انتخابات میں دلچسپ مقابلے کی امید ہے۔

مرکز میں این ڈی اے کی حلیف پارٹی ایل جے پی بہار الیکشن میں بھلے ہی این ڈی اے سے الگ انتخابی میدان میں ہو، لیکن بغاوتی رخ اختیار کر چکے این ڈی اے لیڈران کے لیے ایل جے پی بہار میں پناہ گاہ بن گئی ہے۔ ایل جے پی میں جانے والے لیڈروں کو ایل جے پی کی شکل میں 'اپنوں' کا ساتھ بھلے ہی ملا ہو لیکن این ڈی اے کے لیڈروں نے واضح کر دیا ہے کہ ایل جے پی اب این ڈی اے میں نہیں ہے۔ بی جے پی کی سینئر لیڈر اوشا ودیارتھی نے بدھ کو ایل جے پی کا دامن تھام لیا۔ ودیارتھی بہار بی جے پی کی نائب صدر اور ریاستی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔


ایل جے پی کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد ودیارتھی کہتی ہیں کہ چراغ پاسوان کے ذریعہ نتیش کمار پر لیے گئے اسٹینڈ سے متاثر ہوئیں اور بہار کو آگے لے جانے کے لیے کچھ سخت فیصلے لینے کی ضرورت تھی۔ انھوں نے کہا کہ 'بہار فرسٹ، بہاری فرسٹ' ایک نظریہ ہے جس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ پیر کے روز بھی بی جے پی کے ایک لیڈر برون پاسوان نے ایل جے پی کا دامن تھام لیا تھا۔ انھیں کٹمبا سیٹ سے ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کے خلاف اتارا جا سکتا ہے۔ برون کے جانے کے بعد این ڈی اے اتحاد میں اس بات پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ جے ڈی یو کے خلاف پیدا ہوئی اقتدار مخالف لہر کا فائدہ اٹھانے کے لیے بی جے پی پوری طرح سے ایل جے پی کو اپنی کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے میں جٹ گئی ہے۔


منگل کے روز بھی بی جے پی کے مشہور لیڈر راجندر سنگھ ایل جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق وہ دینارا سے اسمبلی انتخاب لڑیں گے۔ دینارا سے جے ڈی یو نے اپنے وزیر جے کمار سنگھ کو ٹکٹ دیا ہے۔ اِدھر بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور نوکھا سے رکن اسمبلی رہ چکے رامیشور چورسیا، سہسرام سے پانچ بار بی جے پی رکن اسمبلی رہے جواہر پرساد بھی پارٹی سے ناراض ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل جے پی ایسے لوگوں سے رابطہ میں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بھوجپور سے بی جے پی لیڈر رام سنجیون سنگھ، جہان آباد کے دیویش شرما، گیا کے راماوتار سنگھ، جے ڈی یو اور اورنگ آباد ضلع کے سابق نائب صدر آر ایس سنگھ اور کھگڑیا کے سابق جے ڈی یو نائب صدر کپل دیو سنگھ سمیت کئی لیڈر ایل جے پی کے رابطے میں ہیں۔ ایل جے پی کے ایک لیڈر کہتے ہیں کہ پارٹی صدر چراغ پاسوان کے رابطہ میں بی جے پی، جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے درجنوں معروف لیڈر ہیں جو انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ پارٹی کے ذریعہ مضبوط ووٹ بینک والے لیڈروں کو انتخابی نشان دینے میں ترجیح دی جا رہی ہے۔ چراغ پاسوان جلد ہی پہلے مرحلہ کے لیے امیدواروں کی فہرست جاری کریں گے۔


ایل جے پی کے سینئر لیڈر اور پارٹی کے میڈیا پینل میں شامل سنجے صراف نے خبر رساں ادارہ آئی اے این ایس سے کہا کہ اگر کوئی پارٹی کی رکنیت حاصل کرتا ہے تو اس میں کوئی برائی ہے کیا؟ انھوں نے کہا کہ بی جے پی، جے ڈی یو کے کئی وزیر ابھی پارٹی کے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ "ایل جے پی نے 143 سیٹوں پر امیدواروں کی فہرست تیار کر رکھی ہے، لیکن حال ہی میں پارٹی میں شامل ہوئے لیڈروں میں سے کوئی قدآور یا مضبوط ووٹ بینک والا لیڈر ہوگا تو کارکنان کی رائے کے بعد اسے بھی ٹکٹ دیا جا سکتا ہے۔ امیدوار کے انتخاب میں کارکنان کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔