کے سی آر نے 300 کروڑ کا مکان بنوایا لیکن اسکولی بچوں کو پانی نہیں پہنچایا: سبل

کپل سبل نے حیدرآباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر فروغ انسانی وسائل کے طور پر انہوں نے شکشا ابھیان کے تحت 6000 کروڑ روپئے تلنگانہ کودیئے تھے، جس میں سے اب تک صرف5 ہزار کروڑ روپئے ہی خرچ ہوئے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: سابق مرکزی وزیر و کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے کہا ہے کہ تلنگانہ کے 1400سرکاری اسکولس میں اساتذہ نہیں ہیں۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے یہ پوچھا کہ چندرشیکھرراؤ ایک ایسے وزیراعلی ہیں جنہوں نے خود کے لئے تو 300 کروڑ کا مکان بنا لیا لیکن وہ اسکولی بچوں کے لئے پانی کی سہولت پہنچا نہیں سکے۔

انہوں نے تلنگانہ انتخابات کے سلسلہ میں حیدرآباد میں پارٹی کے ہیڈ کوارٹر گاندھی بھون میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر فروغ انسانی وسائل کے طورپر انہوں نے شکشا ابھیان کے تحت 6000 کروڑ روپئے تلنگانہ کودیئے تھے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ 2014 سے لے کر اب تک اس میں صرف پانچ ہزار کروڑ روپئے ہی خرچ ہوئے ہیں؟ اس کامطلب یہ ہے کہ تلنگانہ کے وزیراعلی کے پاس بچوں کی تعلیم کیلئے نہ ہی سونچ ہے نہ وسائل ہیں۔ ملک کی تمام ریاستوں کے ساتھ تلنگانہ کا موازانہ کیا جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ تعلیم کے شعبہ میں تلنگانہ ریاست نیچے سے دوسرے نمبر پر آتی ہے اوراس کا گراف کافی گرا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 75فیصد مرد 58 فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہیں، حیدرآباد جو آئی ٹی کا مرکز کہلاتا ہے، اس میں خواندگی کی شرح میں کمی اور بچوں کی تعلیم کے لئے کم رقم خرچ کرنے کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے اسکلس کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ میں حیدرآباد کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے، حالانکہ حیدرآباد قبل ازیں اس معاملہ میں نمبر ون پر تھا۔ اسکلس اورتعلیم نہ ہونے کے نتیجہ میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوسکے۔

سبل نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی نے ایک لاکھ ملازمتوں کا وعدہ کیا تھا لیکن اس وعدہ کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ریاست کی ترقی اور پیشرفت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے تعلیم کے شعبہ پر نظر رکھنی ہوگی۔ اگر اس طرح تعلیم کی رفتار ہوگی تو ریاست پیشرفت نہیں کرسکتی اور یقینی طور پر اب ریاست میں بدلاؤ کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف تعلیم کا شعبہ ہے وہیں دوسری طرف پریشان حال کسان ہیں۔ کپل سبل نے کہا کہ پچھلے دنوں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹیڈیز نے ایک تجزیہ 692 کسان خاندانوں پر کیا تھا جس میں پتہ چلا کہ سب سے زیادہ کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں تلنگانہ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ مہاراشٹرا میں کسانوں نے خودکشی کی ہے۔

تجزیہ کرنے پر پتہ چلا کہ 15 فیصد ایسے خاندان تھے جن کے پاس زمین یا لیز کی زمین نہیں تھی۔ 45 فیصد ایسے خاندان تھے جن کے پاس 0 سے ڈھائی ایکڑ پر کاشت کا حق تھا۔ باقی 35 فیصد ایسے خاندان تھے جن کے پاس ڈھائی سے پانچ ایکڑ اراضی تھی۔ ان خاندانوں میں 75 فیصد ایسے خاندان تھے جنہوں نے ساہوکاروں سے قرض لے لیا تھا۔ جب حکومت قرض معافی کی بات کرتی ہے تو اس کو سوچنا ہوگا کہ کسان ساہوکار سے لیا گیا قرض کیسے واپس کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ اس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کسانوں کی خودکشی کی وجوہات معلوم کی گئیں جس پر پتہ چلا کہ زیادہ سود ساہوکاروں کو دینے کے سبب ہی خودکشی کرنی پڑی۔ ریاست میں مرچ اور کپاس کی فصل ختم ہوگئی۔ حکومت نے کسانوں کو ہتھکڑی پہنا کر عدالت میں پیش کیا۔ ٹی آرایس نے کسانوں سے کئی وعدے بشمول تین ایکڑ اراضی، ایس ٹی طبقہ کو دینے کا وعدہ کیا لیکن اس وعدہ کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Dec 2018, 9:09 PM