کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس میں ملزمان کو سزائیں ملنا صد فیصد طے: استغاثہ کا انکشاف

وکیل استغاثہ نے بتایا کہ متاثرہ بچی کا کیس انتہائی مضبوط ہے۔ مارچ کے اواخر یا اپریل کے اوائل میں کیس کا فیصلہ آنا متوقع ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا صد فیصد طے ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سرینگر: جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاﺅں میں گذشتہ برس 17 جنوری کو سامنے آنے والے 8 سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل واقعہ کے ملزمان کا ’ان کیمرہ‘ اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں جاری ہے۔ وکیل استغاثہ نے بتایا کہ متاثرہ بچی کا کیس انتہائی مضبوط ہے۔ مارچ کے اواخر یا اپریل کے اوائل میں کیس کا فیصلہ آنا متوقع ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا صد فیصد طے ہے۔

متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کررہے ہیں، نے یو این آئی کو فون پر بتایا ’مقدمے کی سماعت روزانہ بنیادوں پر جاری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مارچ کے اواخر یا اپریل کے پہلے ہفتے میں مقدمے کا فیصلہ سامنے آئے گا‘۔ انہوں نے بتایا ’ہمارا کیس بہت ہی مضبوط ہے، ملزمان کو سزائیں ملنا صد فیصد طے ہے، استغاثہ سینئر ترین وکلاء کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ معصوم بچی کو ہر حال میں انصاف دلایا جائے گا۔ اس کیس کے ساتھ پوری انسانیت کے جذبات منسلک ہیں‘۔

مبین فاروقی نے بتایا کہ استغاثہ کی طرف سے 114 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا جن کے بیانات قلمبند کیے جاچکے ہیں۔ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد عدالت میں جمع کیے گئے ہیں۔ ہم نے شواہد بھی عدالت میں جمع کردیئے ہیں۔ اب عدالت میں وکلاء صفائی اپنے گواہ پیش کریں گے۔ امید ہے کہ وہ اپنے گواہان کو 21 جنوری سے عدالت میں پیش کریں گے۔ جرح کے دوران ان کے گواہان کو ہمارے سوالات کا جواب دینا ہوگا‘۔

فاروقی نے بتایا کہ وہ محمد یوسف (متاثرہ بچی کے والد) کی طرف سے عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا 'استغاثہ کی طرف سے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس شری ایس ایس بسرا اور جگ دیشور کمار چوپڑا کیس کی پیروی کر رہے ہیں اور انہیں مجھ سمیت متعدد وکلاء بشمول شری کے کے پوری، شری ہربچھن سنگھ اسسٹ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اندرا جے سنگھ اور ان کی ٹیم کیس کو دیکھ رہی ہیں‘۔

واضح رہے کہ متاثرہ بچی کے والد نے گذشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کیے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹائے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لئے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔ دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گذشتہ دس ماہ کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔

محمد یوسف نے پٹھان کوٹ عدالت کے احاطے میں دیپکا کو کیس سے ہٹانے کے معاملے پر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ کیس کی اب تک 110 سماعتیں ہوچکی ہیں اور دیپکا راجاوت محض دو مرتبہ عدالت میں حاضر رہیں۔ ان کا کہنا تھا 'میں آج پٹھان کوٹ اس لئے آیا تھا کیونکہ دیپکا جی کو کیس سے ہٹانا تھا۔ کیس کی اب تک 110 سماعتیں ہوچکی ہیں۔ وہ اس دوران صرف دو مرتبہ عدالت میں حاضر رہیں۔ میری طرف سے (استغاثہ کی طرف سے) اس وقت کیس کی پیروی مبین فاروقی، بسرا، چوپڑا اور دوسرے کئی وکلاء کر رہے ہیں۔ کیس صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ یہ سب میڈیا میں کہتی ہیں۔ ہم اس کو کیوں خطرے میں ڈالیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسی کیس سے ہٹا دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اندرا جی (اندرا جے سنگھ) اور ان کی ٹیم کیس کو صحیح سے آگے بڑھا رہی ہیں‘۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 7 مئی کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے یہ حکم سنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیئے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

کیس کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، سانجی رام کا بھتیجا وشال، وشال کا دوست پرویش کمار منو، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا شامل ہیں۔

بتادیں کہ کیس کی ایک سماعت 16 اپریل کو سیشن جج کٹھوعہ سنجیو گپتا کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔

ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی 8 سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا تھا۔

کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ 8 سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاؤں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jan 2019, 5:10 PM