کشمیر میں سیمنٹ پلانٹ 2 ماہ سے بند، ہزاروں مزدور روزی روٹی سے محروم

وادی میں قائم قریب 15 سیمنٹ پلانٹوں کا کلیدی عملہ غیر ریاستی ملازموں پر ہی مشتمل تھا لیکن جب وہ اگست کے پہلے ہفتے میں ایک ایک کرکے چلے گئے تو یہ پلانٹ بند ہوگئے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں جاری نامساعد حالات کی وجہ سے مقامی سیمنٹ پلانٹ بند ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ان پلانٹوں میں کام کرنے والے ہزاروں مزدور روزی روٹی سے محروم ہوگئے ہیں جبکہ سیمنٹ پلانٹ مالکان کو کروڑوں روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی میں قائم قریب 15 سیمنٹ پلانٹوں میں کلیدی عملہ غیر ریاستی ملازموں پر ہی مشتمل تھا لیکن جب وہ اگست کے پہلے ہفتے میں ایک ایک کرکے بھاگ گئے تو یہ پلانٹ بند ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ان پلانٹوں میں کام کرنے والے ہزاروں مقامی مزدور بھی بے روزگار ہوگئے ہیں جن میں سے بیسیوں نے اب دوسرے قسم کی مزدوری کرکے عیال کا پیٹ پالنا شروع کیا ہے۔ اعجاز ڈار نامی ایک سیمنٹ ڈیلر نے یو این آئی کو بتایا 'وادی کے سبھی سیمنٹ پلانٹ بشمول خیبر اور ٹی سی آئی پانچ اگست سے لگاتار بند ہیں۔ یہ پلانٹ غیر ریاستی افرادی قوت پر منحصر ہیں اور ان کے وادی چھوڑ کر چلے جانے کے بعد یہ سبھی پلانٹ بند ہوگئے'۔


ادھر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں اب غیر مقامی سیمنٹ پلانٹوں کا سیمنٹ ہی خریدنا پڑتا ہے، جو نہ صرف کافی مہنگا ہے بلکہ مقامی سیمنٹ کے نسبت غیر معیاری بھی ہے۔ محمد وسیم نامی ایک شہری نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ مقامی سیمنٹ پلانٹ بند ہونے سے متعدد سرکاری وغیر سرکاری تعمیرات متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا 'مقامی سیمنٹ پلانٹ بند ہونے سے سرکاری تعمیرات کا کام بھی رک گیا ہے اور عام لوگوں نے بھی تعمیرات کا کام مؤخر کر رکھا ہے کیونکہ غیرمقامی سیمنٹ غیر معیاری بھی ہے اور مہنگا بھی ہے جس کو لوگ خریدنا نہیں چاہتے ہیں'۔

ایک ٹھیکیدار نے کہا کہ میرا کئی جگہ کام چل رہا تھا لیکن مقامی سیمنٹ کی عدم دستیابی کے باعث کام بند پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا: 'میرا کئی جگہ کام چل رہا تھا اور کئی جگہ مکمل ہونے کو تھا لیکن جب یہاں کی مقامی سیمنٹ فیکٹریاں بند ہوئیں تو میں نے بھی کام بند کیا کیونکہ میں کبھی بھی غیر مقامی سیمنٹ استعمال نہیں کرتا ہوں'۔ عبدالصمد نامی ایک شہری نے کہا کہ میں نے مکان کی سلیب ڈالنا مؤخر کیا کیونکہ مقامی سیمنٹ دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا 'میں مکان تعمیر کر رہا تھا اب صرف سلیب ڈالنا باقی تھا لیکن میں نے کام بند کیا کیونکہ یہاں مقامی سیمنٹ دستیاب ہی نہیں ہے اور میں غیر مقامی سیمنٹ خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں جو مہنگا بھی ہے اور غیر میعاری بھی ہے'۔


دراصل جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے 2 اگست کو ایک ایڈوائزری جاری کی گئی جس میں کشمیر میں موجود غیر کشمیریوں بالخصوص سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کو فوراً سے پیشتر کشمیر چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہا گیا تھا۔ ایڈوائزری جاری ہونے کے ساتھ ہی سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کے ساتھ ساتھ وادی میں موجود لاکھوں غیر ریاستی مزدور بھی کشمیر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

ایڈوائزری میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹائی جائے گی اور تین خطوں پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے راست کنٹرول میں لایا جائے گا۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا تھا کہ 'انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ امرناتھ یاترا کو ملی ٹنٹوں کی طرف سے حملے کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے'۔


قابل ذکر ہے کہ قریب 70 لاکھ کی آبادی والے کشمیر میں ہر سال ہندوستان کی مختلف ریاستوں بالخصوص اترپردیش، بہار، راجستھان اور جھارکھنڈ سے 6 سے 8 لاکھ افراد مزدوری کرنے آتے ہیں۔ لیکن اب گزشتہ زائد از پانچ ہفتوں سے زائد عرصہ سے جاری ہڑتال کے پیش نظر تقریباً 90 فیصد غیر کشمیری مزدور واپس اپنی ریاستوں کو لوٹ چکے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Oct 2019, 8:03 PM
/* */