’دہلی فسادات کے متاثرین کی امداد کے لئے مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے‘

وفد نے بتایا کہ ان فسادات میں 60 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں، بے شمار زخمی ہوئے ہیں اور کئی لاپتہ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں اگرچہ سکون ہے لیکن حالات ابھی بھی کشیدہ ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: کل ہند مجلس تعمیر ملت کا ایک وفد جو نائب صدر تنظیم ضیاء الدین نیئر کی قیادت میں دہلی کے فساد زدہ مقامات کا دورہ کرتے ہوئے حالات کا جائزہ لینے کے لئے گزشتہ ہفتہ روانہ ہوا تھا وہ حیدرآباد واپس ہوچکا ہے اس نے صدر تنظیم سید جلیل احمد ایڈوکیٹ کو اپنی رپورٹ پیش کردی ہے اور اس فساد کے اندوہناک واقعات کی تفصیلات بیان کیں اور بتایا کہ اس فساد میں مسلمانوں کا جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے، اس کی پابجائی کے لئے کئی برس لگ جائیں گے۔

وفد نے بتایا کہ ان فسادات میں 60 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں، بے شمار زخمی ہوئے ہیں اور کئی لاپتہ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں اگرچہ سکون ہے لیکن حالات ابھی بھی کشیدہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کئی دنوں تک وہاں ریلیف بھی پہنچنے نہیں دی گئی۔ ریلیف ورکرز اور صحافیوں کے داخلہ پر بھی تحدیدات عائد رہیں۔ ضیا الدین نیئر نے صدر تنظیم کو بتایا کہ اگرچہ دہلی کی عام آدمی پارٹی سرکار نے متاثرین کی ریلیف کے لئے معقول رقم کا اعلان کیا ہے لیکن متاثرین اس امداد کے حصول میں دشواریاں محسوس کر رہے ہیں۔ دیگر فلاحی و ملی تنظیمیں اپنے طور پر بساط بھر کوششیں کر رہی ہیں، لیکن جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کے لئے یہ اقدامات بہت ہی کم ہیں۔


صدر تنظیم نے ملت کے درد مند افراد سے ریلیف فنڈ میں زیادہ سے زیادہ رقومات جمع کروانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ متاثرین کے حالات اس قدر تشویشناک اور ابتر ہیں کہ ان کا مالیاتی، معاشی، سماجی اور نفسیاتی طور پر سنبھلنا بہت ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ان فسادات کے برے اثرات کئی برسوں تک ان کے اعصاب پر چھائے رہیں گے۔ ایسے میں تمام برادران ملت کی مذہبی و سماجی ذمہ داری ہے کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے مصیبت زدہ بھائی بہنوں کی مدد کے لئے آگے آئیں۔

سید جلیل احمد نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے متاثرین کی امداد کے لئے ریلیف جمع کی جا رہی ہے، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ جو مختلف ادارے، تنظیمیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں ان سب کو مل بیٹھ کر ریلیف کی تقسیم کے لئے ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ اس سے انتظامی مصارف بھی بچیں گے اور ریلیف کی رقم حتیٰ الامکان طور پر تمام متاثرین تک پہنچ پائے گی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ ریلیف کی تقسیم کا کام چار مرحلوں میں کیا جائے۔ سب سے پہلے جزو معاش، غریب اور یومیہ روزی کمانے والوں کو امداد دی جائے ایسے لوگ تھوڑی سی رقم سے دوبارہ اپنا کام شروع کرسکتے ہیں۔ دوسرے مرحلہ میں چھوٹی موٹی صنعتی یونٹ اور متوسط کاروبار کرنے والوں کو امداد دی جائے، جس کے بعد جن کے مکانات اور دکانات نذر آتش ہوئی ہیں ان کی مدد کی جائے اور پھر مساجد کی تعمیر و مرمت کے کام بھی مرحلہ وار انداز میں شروع کیے جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔