کشمیر: شوپیاں میں ہلاکتوں کے خلاف دوسرے روز بھی تعزیتی ہڑتال

شوپیاں کے درگڑ علاقے میں سیکورٹی فورسز اور ملی ٹینٹوں کے درمیان جائے تصادم آرائی کے نزدیک سیکورٹی فورسز اور نوجوانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں جمعہ کے روز لگاتار دوسرے دن بھی ملی ٹینٹوں اور ایک عام شہری کی ہلاکت کے خلاف تعزیتی ہڑتال رہی۔ ادھر شوپیاں کے درگڑ علاقے میں سیکورٹی فورسز اور ملی ٹینٹوں کے درمیان جائے تصادم آرائی کے نزدیک سیکورٹی فورسز اور نوجوانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ شوپیاں کے درگڑ علاقے میں جائے تصادم آرائی پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور شوپیاں میں امن وقانون کی بحالی کے لئے بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق جمعہ کے روز بھی شوپیاں میں جنگجوؤں اور ایک عام شہری کی ہلاکت کے خلاف مکمل ہڑتال رہی۔


بازاروں میں تمام دکانیں بند رہیں، تجارتی سرگرمیاں معطل اور سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل مفلوج رہی تاہم ضلع کی بعض سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں کو چلتے ہوئے دیکھا گیا۔ بتادیں کہ بدھ کے روز شوپیاں میں سیکورٹی فورسز اور نوجوانوں کے درمیان جھڑپوں کے دوران ایک نوجوان کی موت جبکہ دیگر کئی زخمی ہوئے تھے۔ جمعرات کے روز شوپیاں میں آسیہ اور نیلوفر کی دسویں برسی کے موقعہ پر مکمل ہڑتال رہی تھی۔

بتادیں کہ دس سال قبل 30 مئی کو بون گام شوپیاں کی رہنے والی آسیہ اور نیلوفر کی لاشیں رنبی آرا نالے سے بر آمد ہوئی تھیں۔
دونوں خواتین، جو رشتے کے لحاظ سے بھابھی اور نند تھیں، کی مبینہ طور پر قتل سے قبل آبرو ریزی کی گئی تھی اور اس واقعے سے وادی میں بھر میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کی شدید لہر چلی تھی۔


دونوں 29 مئی سال 2009ء کو گھر سے اپنے باغ کی طرف کسی کام سے گئی تھیں اور شام تک گھر واپس نہیں لوٹی تھیں اور پھر اگلے دن یعنی 30 مئی کو ان کی لاشیں رنبی آرا نالے سے بر آمد کی گئی تھیں۔ سخت احتجاجوں کے پیش نظر پہلے واقعے کی تحقیقات ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کی گئی تھی بعد ازاں واقعے کی تحقیقات کے لئے عمر عبداللہ کی سربراہی والی حکومت نے جسٹس (ر) مظفر جان کی سرپرستی میں یک نفری کمیشن مقرر کیا تھا۔

جسٹس جان کمیشن نے واقعے کے اہم شواہد کو مسخ کرنے کے مبینہ جرم میں چار پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کی تھی جنہیں بعد میں ہائی کورٹ کے ہدایات پر معطل اور گرفتار کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد کیس کو سی بی آئی کے سپرد کیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے تحقیقات کے بعد 14 دسمبر سال 2009ء کو فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں خواتین کی موت پانی میں ڈوب جانے سے واقع ہوئی ہے جو یک نفری جسٹس جان کمیشن کی رپورٹ کے بالکل برعکس تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 31 May 2019, 7:10 PM