جی ڈی پی میں 24 فیصد کا غوطہ تباہ معیشت کی نصف داستان ہے، پکچر ابھی باقی ہے!

مارچ میں اچانک لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن نے ہندوستانی معیشت پر اسی قسم کا بریک لگایا جس طرح نومبر 2016 میں نوٹ بندی کے بعد لگا تھا۔

تصویر Getty Images
تصویر Getty Images
user

قومی آواز تجزیہ

نریندر مودی کو ان کا بھوت ڈرا رہا ہے۔ بطور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے اپنے دو ٹوئٹس نے اگست کے آخری دنوں میں انھیں ہی پریشان کر رکھا ہے۔

مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جون 2012 میں ٹوئٹ کیا تھا "یو پی اے حکومت نے پہلی سہ ماہی میں 9 سال کا سب سے کم شرح والی جی ڈی پی شرح ترقی دی ہے۔ اب تک مانسون کمزور ہے۔ ہم ایک ملک کے طور پر کدھر جا رہے ہیں؟" 2020 میں تو مانسون اچھا رہا ہے، پھر بھی جی ڈی پی گزشتہ 9 سہ ماہیوں سے گر رہا ہے اور 21-2020 کی پہلی سہ ماہی میں آزادی کے بعد یہ دباؤ سب سے زیادہ ہے۔


گجرات کے وزیر اعلیٰ نے نومبر 2013 میں پھر ٹوئٹ کیا تھا کہ "معیشت بحران میں ہے، نوجوان روزگار چاہتے ہیں، زوال پذیر سیاست نہیں۔ معیشت کو مزید وقت دیں۔ چدمبرم جی، برائے کرم روزگار پر دھیان دیں۔" یہ حیران کن نہیں ہے کہ اس وقت اپوزیشن میں رہتے ہوئے سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے اس ٹوئٹ کی یاد دلائی ہے اور چٹکی لی ہے کہ "مجھے عزت مآب وزیر اعظم سے کچھ کہنا ہے۔"

31 اگست کو کیے گئے اس اعلان نے ماہرین معیشت اور اسی طرح صنعتوں کو ڈرا دیا ہے کہ ہندوستان کی جی ڈی پی 23.9 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ تو کسی ڈراؤنی فلم کا ٹریلر بھر ہے اور ابھی تو مزید برے دن آنے والے ہیں۔ آخر مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن کہہ رہی ہیں کہ حکومت زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ بحران 'بھگوان کا کیا دھرا' (ایکٹ آف گاڈ) ہے۔


کچھ ایسی باتیں بھی کہی جا رہی ہیں جنھیں سننا عام دنوں میں تو مزیدار ہوتا، لیکن اس وقت چبھنے والی ہیں۔ چیف معاشی مشیر کے ویس برامنیم نے کہا کہ دوسری اور تیسری سہ ماہی میں مختلف سیکٹرس میں ہم انگریزی کے 'وی' حرف کی طرح ریکوری دیکھنے جا رہے ہیں۔ معیشت میں اس کا مطلب ہوتا ہے تیزی سے گراوٹ کے بعد اتنی ہی تیزی سے عروج۔ گزشتہ سال تک وزیر اعظم کی معاشی مشاورت کونسل کے رکن رہے اور اب لندن میں اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ اور پالیسی کے ڈائریکٹر رتھن رائے نے سبرامنیم کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ "کیا انھوں نے ایسا کہا؟ مجھے نہیں پتہ۔ میں معیشت کے بارے میں جانتا ہوں، حروف کی جانکاری نہیں۔ اگر معیشت کا میرا علم کسی حرف کے برابر ہوتا ہے، تو پہلے میں اسے سمجھتا ہوں اور تب یکسانیت کی دلیل تک پہنچتا ہوں۔ میں اسے الٹا کرنے میں اہل نہیں ہوں۔"

رائے نے گزشتہ سال مئی میں ہی ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا "ہم ڈھانچہ پر مبنی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ قبل از وقت تنبیہ ہے۔ 1991 میں معیشت برآمدات کی بنیاد پر نہیں بڑھ رہی ہے، بلکہ یہ ہندوستانی آبادی کے اوپر کے 10 کروڑ لوگ کیا استعمال کر رہےہیں، اس بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔" انھوں نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی کی کہانی کو 'قوت دینے والے' یہ 10 کروڑ صارفین مستحکم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "مختصر میں اس کا مطلب ہے کہ ہم جنوبی کوریا نہیں ہوں گے۔ ہم چین نہیں ہوں گے۔ ہم برازیل ہو جائیں گے۔ ہم جنوبی افریقہ بن جائیں گے۔ ہم متوسط آمدنی والے طبقہ کے ملک ہو جائیں گے جہاں غریبی میں جی رہے لوگوں کی بڑی تعداد ہوگی اور ہم جرائم کو بڑھتے ہوئے دیکھیں گے۔" انھوں نے اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہی تھی کہ "دنیا کی تاریخ میں ممالک نے متوسط آمدنی کے جال میں پھنسنا کسی بھی طرح ٹالا ہے لیکن ایک بار اس م یں پھنس جانے کے بعد اس سے باہر نکلنے میں کوئی ملک کبھی کامیاب نہیں ہوا۔"


مارچ 2020 میں اچانک لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن نے ہندوستانی معیشت پر اسی قسم کا بریک لگایا جس طرح نومبر 2016 میں نوٹ بندی کے بعد لگا تھا۔ ایک ماہر معیشت نے اسے اس طرح بتایا تھا "یہ اسی طرح ہے جیسے کہ خوب تیز رفتار کی اسپورٹس کار کے پہیہ پر گولی داغ دی جائے۔ جی ایس ٹی کے امکانات ویسے ہی دھومل ہو چکی ہیں، اس پر سے یہ سب۔"

جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ مزید برے ہوتے اگر زراعتی سیکٹر 3.4 فیصد اور حکومت کا اپنا استعمال خرچ 16.4 فیصد کی شرح سے نہ بڑھا ہوتا۔ آخر کار کانکنی میں 23.8 فیصد، مینوفیکچرنگ میں 39.3 فیصد، کنسٹرکشن میں 50.3 فیصد اور ٹرانسپورٹ و کمیونکیشن میں 47 فیصد کی کمی ہو گئی۔ اسی طرح کئی دیگر سیکٹرس میں بھی کمی دیکھنے کو ملی۔


ویسے جتنی کمی دکھائی جا رہی ہے، حالات اس سے زیادہ بدتر ہونے کا اندیشہ ہے۔ کئی لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ "جب لاک ڈاؤن پوری طرح تھا، تب اپریل میں ہوٹل اور ہاسپیٹلٹی کی کمی صرف 47 فیصد کس طرح ہو سکتی ہے۔" ان کا اندیشہ ہے کہ اس سیکٹر میں 80 فیصد تک کی کمی ہو گئی ہوگی۔ ہندوستان کے سابق چیف اسٹیٹسٹک پرنب سین کا کہنا ہے کہ سہ ماہی اندازہ لسٹیڈ کارپوریٹ کے کارپوریٹ ڈاٹا پر مبنی ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ "ہمیں اندیشہ ہے کہ بڑی کمپنیوں کے مقابلے میں چھوٹی کمپنیوں نے بدتر کیا ہوگا اس لیے ہمیں اس نظریہ سے ایک دیگر دور کے از سر نو جائزہ کی امید کرنی چاہیے۔ دوسرا جائزہ تب ہوگا جب غیر رسمی سیکٹر کا ڈاٹا آئے گا اور تب وسیع پیمانے پر جائزہ ہو سکے گا۔"

لیکن حکومت اپنے کو مضبوط دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کے چیف معاشی مشیر کرشن مورتی سبرامنیم نے 'بھگوان کے کیے دھرے' کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وبا 'ڈیڑھ سو سال میں ایک دفع آتی ہے' اور ہندوستان و دنیا اس سے گزر رہی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ معیشت کی مضبوطی کا اچھا اشارہ ریلوے سے مال ڈھلائی، گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 95 فیصد تک ہے۔ توانائی خرچ گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف 1.9 فیصد کم ہے اور ای-وے بل کے ذریعہ کلیکشن بڑھا ہے۔ اس کا مطلب ٹرانسپورٹ کا موومنٹ بڑھا ہے۔ وزارت مالیات میں چیف معاشی مشیر سنجیو سانیال نے بھی پرامید ہو کر کہا کہ ہندوستان واحد ملک ہے جو شرح سود میں تخفیف کی حالت میں ہے۔ انھوں نے اشارہ دیا کہ مزید تخفیف کرنے پر طلب اور سرمایہ کاری میں رفتار آئے گی۔


ملکی مفاد کے خیال سے، یہ امید کرنی چاہیے کہ ان کی باتیں درست ہوں۔ ویسے تو فی الحال تاریکی ہی نظر آ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Sep 2020, 8:11 PM