نئے سال میں نتیش کمار کے لیے اقتدار پر گرفت بنائے رکھنا بڑا چیلنج

یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ نئے سال میں وزیراعلیٰ نتیش کمار ریاست کے بدلے سیاسی منظرنامے میں آگے بھی حکومت اور بہار این ڈی اے میں بڑے بھائی کی شبیہ برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔

 نتیش کمار، تصویر یو این آئی
نتیش کمار، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

پٹنہ: کورونا بحران کے درمیان بہار میں اس سال ہوئے اسمبلی انتخاب میں زبردست مقابلے کے بعد وزیراعلیٰ نتیش کمار کو ایک بار پھر ریاست کے عوام کی خدمت کا موقع تو مل گیا لیکن اراکین اسمبلی کی تعداد کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے ساتھ والی قومی جمہوری اتحاد ( این ڈی اے) حکومت میں ان کی پارٹی جنتادل یونائٹیڈ ( جے ڈی یو) کا کردار ’چھوٹے بھائی“ کا ہو جانے سے نئے سال میں نتیش کمار کے لئے اقتدار میں اپنی پکڑ بنائے رکھنے کا چیلنج ہوگا۔

نتیش کمار کی قیادت میں بہار میں کورونا وبا کے چیلنجوں کا سامنا مضبوطی سے کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کورونا انفیکشن کی روک تھام کے لئے بہار میں لاک ڈاﺅن کا اعلان وزیراعظم نریندر مودی کے 24 مارچ 2020 کو پورے ملک میں لاک ڈاﺅن نافذ کرنے سے پہلے کر دیا تھا۔ ریاست میں کورونا انفیکشن سے جان گنوانے والے افراد کے اہل خانہ کو چار لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم دیا۔ وسری ریاستوں میں پھنسے بہار کے ہر ایک شخص کو ایک۔ ایک ہزار روپے مالی امداد دی گئی۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت کے تعاون سے ریاست کے غریب لوگوں کو راشن اور دیگر امدادی رقم مہیا کرائی گئی۔ اجولا منصوبہ کے تحت رسوئی گیس سیلنڈر خریدنے کے لئے لوگوں کو جن۔ دھن کھاتے میں رقم منتقل کی گئی۔


بہار میں اس سال اپریل تک انفیکشن کی رفتار قابو میں رہی لیکن مئی اور اس کے بعد انفیکشن کے معاملے تیزی سے بڑھے۔ حالانکہ انفیکشن کے خطرات کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے باہر پھنسے لوگوں کو بہار واپس لانے کی مخالف کی تھی۔ یہ معاملہ کچھ لیڈران اور بااثر شخصیات کے راجستھان کے کوٹہ میں پھنسے بیٹے۔ بیٹیوں کو واپس لانے کی اجازت مل جانے کے ساتھ شروع ہوا۔ کانگریس اور راشٹریہ جنتادل ( آرجے ڈی) نے ان بااثر لوگوں کو کوٹا سے ان کے بچوں کو واپس لانے کی اجازت دیئے جانے کو لیکر وزیراعلیٰ پر حملہ کیا اور کہا کہ یہ بھید بھاﺅ نہیں چلے گا۔ انہوں نے حکومت پر دوسری ریاستوں میں پھنسے بہار کے مزدوروں اور ملازمین کو واپس لانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اپوزیشن کے دباﺅ کے بعد وزیراعلیٰ نے لاک ڈاﺅن میں پھنسے لوگوں کو واپس لانے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی سے خصوصی ٹرینیں چلانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطالبے کو قبول کرتے ہوئے مودی نے بڑے پیمانے پر ٹرینوں کی آمدورفت شروع کرنے کی ہدایت دی۔ لگ بھگ 21 لاکھ لوگ بہار واپس لوٹے۔

کورونا کے بڑھتے اثرات کو دیکھتے ہوئے 03 اگست کو بہار قانون ساز اسمبلی کا مانسون سیشن گیان بھون میں منعقد کیا گیا۔ بہار کے قانون سازی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا جب سیشن قانون ساز اسمبلی بلڈنگ کے بجائے دیگر کسی اور جگہ طلب کیا گیا۔ سیشن کے دوران اپوزیشن لیڈر تیجسوی پرساد یادو نے واپس لوٹے مزدوروں کی وجہ سے ریاست میں جرائم بڑھنے اور اسے کنٹرول کرنے کے لئے پولیس ہیڈکوارٹر سے جاری خط سے متعلق نتیش حکومت پر جم کر حملہ بولا اور کہا کہ حکومت غریب مزدروں کو چور اور مجرم مانتی ہے۔ کورونا مدت میں ہی شمالی بہار نے سیلاب کی مار کو بھی جھیلا۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے راحت کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کی جانچ کرانے کی ہدایت دی۔


کورونا اور سیلاب جھیل رہے بہار میں اسمبلی انتخاب کرانے کا اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کروڑوں لوگوں کی جان کی شرط پر انتخاب کرایا جانا مناسب نہیں ہے۔ اس لئے آرجے ڈی، کانگریس، بایاں محاقذ سمیت سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے انتخابی کمیشن سے اکتوبر۔ نومبر میں انتخاب نہیں کرانے کی درخواست کی۔ وہیں جے ڈی یو اور بی جے پی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے انتخاب کرایا جاسکتا ہے۔ کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے خیالات جاننے اور خود کے تجزیہ کے بعد اکتوبر۔ نومبر میں انتخاب کرائے جانے کا اعلان کیا۔ کورونا انفیکشن کے تمام خطرات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے انتخاب کی تیاری شروع کر دی۔

بہار میں انتخاب کے مدنظر سیاسی واقعات تیزی سے بدلے۔ آرجے ڈی زیر قیادت مہا گٹھ بندھن کی حلیف سابق وزیراعلیٰ جیتن رام مانجھی کی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ ( ہم ) آر جے ڈی پر کوآرڈینیشن کمیٹی بنائے جانے کا مطالبہ نہیں ماننے کا الزام لگاتے ہوئے مہا گٹھ بندھن سے ناطہ توڑ کر این ڈی اے میں شامل ہوگئی۔ تیجسوی پرساد یادو کو مہا گٹھ بندھن کا وزیراعلیٰ عہدہ کا چہرہ بنائے جانے سے غیر مطمئن راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) نے بھی مہا گٹھ بندھن چھوڑ کر بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی) اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ الگ محاذ بنا لیا۔ وہیں وعدہ خلافی کا الزام لگا کر مکیش سہنی کی ویکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) بھی این ڈی اے میں شامل ہوگئی۔ اس کے بعد مہا گٹھ بندھن میں آرجے ڈی، کانگریس،سی پی آئی، سی پی آئی ایم، سی پی آئی ایم ایل ہی بچ گئے۔


لوک جن شکتی پارٹی ( ایل جے پی) کے مطالبے کو لیکر حلیف جماعتوں کے مابین سیٹ تقسیم پر تعطل طویل عرصے تک جاری رہا۔ وہیں ایل جے پی کے قومی صدر چراغ پاسوان کی وزیراعلیٰ نتیش کمار کے خلاف بیان بازی نے این ڈی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔ کافی کھینچ تان کے بعد جے ڈی یو 122 سیٹ اور بی جے پی کو 121 سیٹیں ملیں جبکہ ایل جے پی نے تنہا انتخاب لڑنے کا فیصلہ لیا۔ جے ڈی یونے اپنے کوٹے میں سے سات سیٹیں ہم کو وہیں بی جے پی نے اپنے کوٹے سے 11 سیٹیں وی آئی پی کو دیں۔ تین مراحل میں مکمل ہوئے انتخاب میں این ڈی اے نے 125 سیٹیں جیتیں۔ 74 سیٹیں جیت کر بی جے پی این ڈی اے کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری وہیں جے ڈی یو کو 43 وہیں ہم اور وی آئی پی کو چار۔ چار سیٹیوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ وہیں مہا گٹھ بندھن کو 110 سیٹیں ملیں۔ ان میں آرجے ڈی کو 75، کانگریس کو 19، سی پی آئی۔ ایم ایل کو 12 اور سی پی آئی اور سی پی آئی ایم دو۔ دو سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔

بہار این ڈی اے میں اس بار جے ڈی یو بی جے پی سے کم سیٹیں لاکر چھوٹے بھائی کے کردار میں آگیا۔ اس کی وجہ سے جے ڈی یو کے قومی صدر نتیش کمارنے بی جے پی کو کسی دیگر لیڈر کو وزیراعلیٰ بنانے کی صلاح دی، لیکن این ڈی اے کے سبھی حلیف جماعتوں نے متفقہ طور پر نتیش کمار کو وزیراعلیٰ بننے کے لئے زور دیا۔ 16 نومبر کو نتیش کمار نے ایک بار پھر وزیراعلیٰ عہدے کا حلف لیا لیکن جے ڈی یو کو کم سیٹ ملنے کی وجہ سے حکومت پر ان کی گرفت تھوڑی کمزور دکھی۔ بی جے پی کی جانب سے اہم محکموں کے مطالبے پر ابھی بھی نتیش حکومت کے کابینہ کی توسیع نہیں ہو پائی ہے۔ وہیں اس سے قبل حکومت میں نائب وزیراعلیٰ رہ چکے بی جے پی کے سنیئر لیڈر سشیل کمار مودی کو راجیہ سبھا بھیج دیا گیا اور تار کشور پرساد اور رینو دی کو نائب وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ دریں اثناء اروناچل پردیش میں جے ڈی یو کے سات میں سے چھ اراکین اسمبلی کے بی جے پی میں شامل ہوجانے سے بہار کی سیاسی سرگرمی سال کے اخیر میں بڑھ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کا اثر بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔


جے ڈی یو کی قومی ایکزیکیٹیو اور قومی کونسل کی میٹنگ میں تجویز پاس کر کے بی جے پی کی اس کارروائی کی شدید تنقید کی گئی۔ وہیں نتیش کمار کے قریبی مانے جانے والے انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس ( آئی اے ایس ) کے سابق افسر آر سی پی سنگھ کو جے ڈی یو کا قومی صدر بنایا گیا۔ انہیں پارٹی کی پورے ملک میں توسیع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اجلاس میں نتیش کمار نے کہا کہ انتخاب کے بعد وہ پھر سے وزیراعلیٰ نہیں بننا چاہتے تھے لیکن دباﺅ میں انہیں یہ ذمہ داری لینی پڑی۔ اس کی تصدیق سابق نائب وزیراعلیٰ مودی نے بھی کی۔ اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ نئے سال میں وزیراعلیٰ نتیش کمار ریاست کے بدلے سیاسی منظرنامے میں آگے بھی حکومت اور بہار این ڈی اے میں بڑے بھائی کی شبیہہ برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */