لکھنؤ بم دھماکہ کیس میں انصاف کی امید ٹوٹی: محمد شعیب

لکھنؤ عدالت میں بم دھماکہ معاملہ میں 5 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں 2کو بہت پہلے آزادی مل چکی ہے اور ایک کا پولس حراست میں قتل ہو گیا۔ بقیہ دو لوگوں کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

سینئر وکیل محمد شعیب گزشتہ 11 سال سے جس کیس میں اپنی جان جوکھم میں ڈالے ہوئے تھے، اس میں اب انصاف ملنے کی امید انھیں بہت کم نظر آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 11 سال سے چل رہے مقدمے میں دو منٹ میں فیصلہ دے دیا گیا اور بغیر بچاؤ فریق کو موقع دیے قصوروار ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ سرکاری وکیل کی تحریری بحث اور نظیریں آنے کی تاریخ پر جج نے یہ فیصلہ سنایا۔ اب 27 اگست کو سزا سے متعلق فیصلہ ہونا ہے۔ یہ کیس 2007 کا ہے جب لکھنؤ عدالت میں بم پھٹنے کے الزام میں ایس آئی ٹی نے پانچ لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ یہ سبھی پانچ مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے نام طارق قاسمی، خالد مجاہد، سجاد الرحمن، اختر وانی اور آفتاب عالم انصاری ہیں۔

محمد شعیب نے اس کیس کے بارے میں بتایا کہ پانچ میں سے دو لوگوں کو آزاد کر دیا گیا تھا اور خالد کا پولس کی حراست میں ہی قتل ہو گیا تھا۔ آفتاب عالم کو جنوری 2008 میں ہی آزاد کر دیا گیا تھا جب کہ سجاد الرحمن کو 14 اپریل 2011 میں رہائی ملی تھی۔ بقیہ بچے دو لوگوں طارق قاسمی اور اختر وانی کا کیس چل رہا تھا اور سال 2008 سے شعیب خود اس کیس سے منسلک تھے۔ اس کیس کو لڑنے کی وجہ سے لکھنؤ سے لے کر بارابنکی عدالت تک میں ان پر حملہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے ہی اس کیس کی سماعت جیل میں ہونے لگی۔ اس پورے معاملے میں نمیش جانچ کمیشن بٹھائی گئی تھی جس نے 2012 کو سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو اپنی رپورٹ سونپی تھی۔ اس رپورٹ کو بہت دباؤ کے بعد اسمبلی میں رکھا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ طارق قاسمی اور خالد کو ایس ٹی ایف نے جس طرح سے 22 دسمبر 2007 کو بارابنکی ریلوے اسٹیشن کے پاس سے گرفتار کیا گیا اور ظاہر کیا کہ وہ مشتبہ معلوم ہوتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بچاؤ فریق کا دعویٰ ہے کہ طارق قاسمی کو ایس ٹی ایف نے 12 دسمبر 2007 کو رانی کی سرائے اعظم گڑھ اور خالد کو مڈیاہو ضلع جونپور سے اٹھایا تھا۔ ان دونوں ہی جگہ ان کی گرفتاری کے خلاف مقامی باشندوں نے دھرنا و مظاہرہ کیا تھا۔ نمیش کمیشن نے بھی سفارش کی تھی کہ جن پولس والوں نے ان دونوں کو غلط طریقے سے اٹھا کر حراست میں رکھا اور ظلم ڈھایا، ان کی شناخت کر کے انھیں سزا دی جانی چاہیے۔

وکیل محمد شعیب کو اس بات کا گہرا غم ہے کہ جب 16 اگست 2018 کو جیل عدالت لکھنؤ میں طارق قاسمی اور محمد اختر کا مقدمہ سماعت کے لیے لگا تھا تو اپنی بحث جاری رکھتے ہوئے استغاثہ نے تحریری بحث اور نظیر پیش کرنے کے لیے وقت مانگا تھا۔ عدالت نے 23 اگست 2018 کی تاریخ طے کی تھی۔ ہر تاریخ پر پریزائڈنگ افسر 11 سے 11.30 بجے تک عدالت میں آ جاتی تھیں ، لیکن 23 اگست کو وہ تقریباً 3 بج کر 35 منٹ پر جیل میں واقع اپنے چیمبر پہنچیں۔ تقریباً 4 بجے وہ اپنی آرام گاہ سے باہر آئیں اور دو منٹ میں فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے میں ملزم کے خلاف قصور ثابت مانتے ہوئے سزا پر بحث کے لیے 27 اگست کی تاریخ طے کر دی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔