پولیس لائبریری اور مسجد میں کیسے گھس سکتی ہے؟ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے: آئشی گھوش

جامعہ پہنچیں جے این یو طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش نے کہا کہ ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے ترغیب لینے کی ضرورت ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: دہلی کی کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ نے بدھ کے روز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس وحشیانہ مظالم کے مجرموں کے خلاف کاروائی کرنے اور شہریت ترمیمی قانون واپس لینے کے مطالبے کے سلسلے میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جے این یو طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش بھی جامعہ پہنچیں اور شاہین باغ کی خواتین مظاہرین کی تعریف کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے کشمیر کا معاملہ بھی اٹھایا۔

جے این یو طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش نے کہا، ’’ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے ترغیب لینے کی ضرورت ہے۔ دہلی پولیس جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور طلباء پر تشدد کیا۔ یہاں کی یونیورسٹی کی لائبریری کو پولیس نے توڑا تھا۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس مسجد اور لائبریری کو کیسے توڑ سکتی ہے؟ ہم اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘‘

پولیس لائبریری اور مسجد میں کیسے گھس سکتی ہے؟ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے: آئشی گھوش

دریں اثنا، کشمیر پر بات کرتے ہوئے آئشی گھوش نے کہا ’’ہم کشمیریوں کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے، کیوں کہ آئین پر حملہ وہاں سے شروع ہوا تھا۔‘‘ جیسے ہی آئشی گھوش نے اپنی بات ختم کی طلباء نے یہاں ’لال سلام، لال سلام، این آر سی سے آزادی، سی اے اے سے آزادی، ہمیں چاہئے آزادی‘ کے نعرے لگائے۔


جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے گذشتہ ماہ بربریت پر مبنی طلبہ پر ہونے والی پولیس کاروائی کے ایک ماہ پورا ہونے پر یہاں کے تمام طلبہ کو ’چلو جامعہ‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اس اپیل پر جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) اور امبیڈکر یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ نے دوپہر جامعہ کیمپس کے باہر جائے مظاہرہ پہنچ کر پولیس کے وحشیانہ مظالم کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ۔

ڈی یو کے سینٹ کالج کے قریب 50 طلبہ و طالبات اور ’پنجڑا توڑ آندولن‘ سے متعلق طلبہ نے جامعہ کے طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ ڈی یو طلبہ یونین (ایس یو)کے سابق صدر اور سینٹ اسٹیفن کالج کی پروفیسر نندتا نارائن نے یواین آئی سے کہا کہ سینٹ اسٹیفن کالج کے طلبہ جامعہ میں ہوئے ظلم و تشدد کے ایک ماہ پورا ہونے پر ان کی حمایت میں آئے ہیں۔ پروفیسر نارائن نے کہا کہ جامعہ میں 15 دسمبر کے واقعہ کے بعد عوام میں بیداری آئی ہے اور وہ جامعہ اور شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی خواتین کی حمایت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے واقعات سامنے آئے، ایک ایک کر کےتمام اداروں کو نشانہ بنایا گیا، تین طلاق کو ختم کیا گیا، کشمیر میں دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا پھر بھی عوام نے کسی طرح کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن سی اے اے لا کر مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے اسے ملک کے عوام کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔


انہوں نے کہا کہ سی اےا ے، این آر سی اور این آر پی جیسے قانون براہ راست پر آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور پر حملہ ہے جسے کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سینٹ اسٹیفن کی ایک طلبہ نے کہا کہ ملک کی معیشت برے دور سے گزر رہی ہے، مہنگائی، غریبی، اور بھوک مری بلندی پر ہے۔ حکومت اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کے قوانین لا آرہی ہےجس میں اپنے ہی شہریوں کو شہریت ثابت کرنے کا چیلنج ہے۔ حکومت کو اس کالے قانون کو واپس لینا ہی پڑے گا۔

امبیڈکر یونیورسٹی کے ایک طالب علم آکاش نے کہا کہ حکومت بالکل من مانی پر اتر آئی ہے۔ اسے اپنے شہریوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اقتدارپر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے تقسیم کرنے والی پالیسیز لارہی ہے۔ان قوانین سے سماج کا غریب، مزدور، قبائلی اور اقلیتی طبقہ پریشان ہوگا۔

غورطلب ہے کہ 15 جنوری کو سی اے اے، این آر سی اور این آر پی کے خلاف مظاہرے کے دوران جامعہ کیمپس میں گھس کر پولیس نے طلبہ کو بے رحمی سے پیٹا تھا اور لائبریری میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس واقعہ کی ملک اور بیرون ممالک کے یونیورسٹیوں میں مذمت کی گئی ہے۔ پولیس کے خلا ف کاروائی اور سی اےا ے واپس لینے کےمطالبے کے سلسلے میں جامعہ کے طلبہ گذشتہ ایک ماہ سے تحریک چلا رہے ہیں۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */