لو جہاد قانون کے خلاف گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ اطمینان بخش: مولانا محمود مدنی

گجرات ہائی کورٹ نے لو جہاد قانون کی کچھ شقوں کی عمل آوری پر روک لگا دی ہے اور کہا ہے کہ لوگوں کو غیر ضروری پریشانی سے بچانے کے لیے یہ عبوری حکم پاس کیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر

جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے گجرات حکومت کے ذریعہ پاس کردہ ’لو جہاد قانون‘ کے خلاف داخل عرضی پر گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ انھوں نے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’منفی پس منظر میں قانون بنانے والوں کو عدالت نے آئینہ دکھا یا ہے، اس قانون کی جن شقوں پر عدالت نے محض تیسری سماعت میں ہی پابندی لگائی ہے، ان کے اجزاء دہشت گردی مخالف قانون ’یواے پی اے‘ سے بھی سخت ہیں۔‘‘ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ’’آپ ایک سماجی مسئلہ کو اس طرح ٹریٹ نہیں کر سکتے، اس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو ں گے۔‘‘

دراصل گجرات کی بی جے پی حکومت نے جو ’لو جہاد قانون‘ ریاست میں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے کچھ شقوں پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے گجرات ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا دی ہے۔ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس بیرین ویشنو پر مشتمل بنچ نے مذہب تبدیلی سے متعلق ریاست کے نئے قانون کی بین مذہبی شادی سے متعلق کچھ شقوں کی عمل آوری پر جمعرات کو روک لگاتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو غیر ضروری پریشانی سے بچانے کے لیے یہ عبوری حکم پاس کیا گیا ہے۔


قابل ذکر ہے کہ شادی کے ذریعہ سے جبراً یا دھوکہ دہی سے مذہب تبدیلی کے لیے سزا دینے والے گجرات مذہبی آزادی (ترمیم) ایکٹ 2021 کو ریاستی حکومت نے 15 جون کو نوٹیفائی کیا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کے گجرات برانچ نے گزشتہ مہینے داخل ایک عرضی میں کہا تھا کہ قانون کی کچھ ترمیم شدہ دفعات غیر آئینی ہیں۔ اسی عرضی پر گجرات ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی اور کچھ اہم اقدام کیے گئے۔

چیف جسٹس وکرم ناتھ نے جمعرات کو کہا کہ ’’ہماری یہ رائے ہے کہ آگے کی سماعت زیر التوا رہنے تک دفعہ 3، 4، 4 اے سے لے کر دفعہ 4 سی، 5، 6 اور 6 اے کو تب نافذ نہیں کیا جائے گا اگر ایک مذہب کا شخص کسی دوسرے مذہب کے شخص کے ساتھ طاقت استعمال کیے بغیر، کوئی لالچ دیے بغیر یا دھوکہ کا استعمال کیے بغیر شادی کرتا ہے۔ اور ایسی شادیوں کو غیر قانونی مذہب تبدیلی کے مقاصد سے کی گئی شادی قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بین مذہبی شادی کرنے والے فریقین کو غیر ضروری پریشانی سے بچانے کے لیے یہ عبوری حکم جاری کیا گیا ہے۔‘‘


واضح رہے کہ حال ہی میں گجرات مذہبی آزادی ترمیم (لو جہاد) قانون کے تحت درج ہوئے ایک مقدمے میں نیا موڑ تب آ گیا جب شکایت دہندہ خاتون نے خود ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر بتایا کہ اس پر شادی اور مذہب تبدیلی کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا ہے۔ اس لیے اس کی جانب سے 17 جون 2021 کو درج ایف آئی آر رد کر دی جائے۔ دراصل وڈودرا کی ایک 25 سالہ خاتون نے جون 2021 میں گوتری پولیس تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی تھی جس میں اس نے زبردست دھمکی دے کر فروری 2021 میں شادی کرنے اور مذہب تبدیل کرانے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن پھر بعد میں اس نے ایسی کسی بھی بات سے انکار کر دیا اور ایف آئی آر واپس لینے کی بات کہی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔