گراؤنڈ رپورٹ: گاؤں گاؤں میں پھیلنے لگی ہے ’کسان تحریک‘ کی تپش

سردار امریک سنگھ کا کہنا ہے کہ کسانوں کی لڑائی پوری طرح سے جائز ہے اور ان پر لگائے جا رہے سبھی الزامات بے بنیاد ہیں۔ یہ بی جے پی کا ایجنڈا ہے کہ ان کے غلط کاموں کی مخالفت کرنے والوں کو بدنام کیا جائے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

دہلی-پوڑی سڑک پر میرٹھ اور بجنور کے درمیان رام راج نامی علاقہ آتا ہے۔ رام راج کو منی پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ رام راج سے ہستنا پور راستہ پر واقع سنگت محلے میں 40 سالہ سردار بوٹا سنگھ ہم سے کہتے ہیں ’’کسانوں کی لڑائی بالکل صحیح ہے اور حق کی لڑائی ہے۔ ابھی ہم نے صرف گدے اور راشن ہی بھجوائے ہیں، اب ہم بھی ان کے ساتھ رہیں گے۔ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ یہ لوگ قانون بنا کر کسانوں کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ ہمارے بچوں کے منھ سے نوالہ چھیننا چاہتے ہیں۔ حکومت کو یہ قانون واپس کرنا ہی ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ہم لڑتے رہیں گے۔ آخری سانس تک لڑیں گے۔ مودی جو کچھ ہے کسانوں کی وجہ سے ہے، یہ قانون ہمیں رد کروانا ہے۔‘‘

رام راج کے اس سنگت محلے میں کسانوں کے تقریباً 50 گھر ہیں۔ سبھی گھر بہت بڑے ہیں۔ نوجوان گرجنت سنگھ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہاں 5 ایکڑ سے کم کوئی زمین رکھنے والا کوئی کسان نہیں ہے۔ یہ تقریباً 35 بیگھا ہوتا ہے۔ یہاں ہر گلی میں گنے کی ٹرالی کھڑی ہے۔ گرجنت بتاتے ہیں کہ مل مالکان باہر سے گنّا خرید رہے ہیں جب کہ ہمیں انڈینٹ نہیں دے رہا ہے۔ کسان سے گنّا خریدنے کے لیے مل مالک پرچی دیتا ہے۔ طے رقم پر گنّا خریدنے سے بچنے کے لیے مل باہر سے گنّا لے رہا ہے۔ یہ اسے سستے میں مل رہا ہے اور یہاں کے کسانوں کا گنّا خراب ہو رہا ہے۔


46 سالہ نریندر سنگھ نئے زرعی قانون کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ اس بات سے قانون کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ آج مل مالک کسانوں کا گنّا خریدنے کے لیے مجبور ہیں، گنے کا ایک ایم ایس پی ہے، ایک قیمت طے ہے۔ کل جب ایم ایس پی نہیں رہے گا تو خریدار قیمت اپنی مرضی سے طے کرے گا۔ کسان سستی نہیں دے پایا تو اس کی پیداوار سڑ جائے گی۔ مجبور میں وہ کم قیمت میں ہی فروخت کر پائے گا۔ نریندر سنگھ مزید بتاتے ہیں کہ خریدار نہ ملنے سے انھیں دھان کی فصل میں 50 ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے۔ 1791 فی کوئنٹل کو ہم نے مجبوری میں 1600 روپے میں فروخت کیا، جب کہ ایم ایس پی 1900 ہے۔ افسر لوگوں نے کانٹے پر اس کا دھان تولا ہی نہیں۔ ہریانہ میں ہماری فصل فروخت ہی نہیں ہوئی۔

گراؤنڈ رپورٹ: گاؤں گاؤں میں پھیلنے لگی ہے ’کسان تحریک‘ کی تپش

65 سال کے سردار امریک سنگھ بھی اپنا درد بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسانوں کی لڑائی پوری طرح سے جائز ہے اور ان پر لگائے جا رہے سبھی الزامات بے بنیاد ہیں۔ یہ بی جے پی کا ایجنڈا ہے کہ ان کے غلط کاموں کی مخالفت کرنے والوں کو بدنام کرنے کے لیے یہ ان پر نئے نئے الزام لگاتےہیں۔ خالصتانی کہنے والی بات بھی ایسی ہی ہے۔ سب کسان ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں، انھیں بدنام کیا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ اب مودی ہمیں اچھے نہیں لگ رہے ہیں، وہ ان قوانین کو جتنی جلدی واپس لے لیں بہتر ہے۔ اب ہم بھی دہلی مظاہرہ میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

گراؤنڈ رپورٹ: گاؤں گاؤں میں پھیلنے لگی ہے ’کسان تحریک‘ کی تپش

70 سالہ گردیپ سنگھ ملک کہتے ہیں کہ مودی جی نے یہ غلط قانون ہم پر تھوپ دیا ہے۔ مظاہرہ میں شامل سبھی کسانوں کو ہماری حمایت ہے۔ یہ سیاہ قانون ہے، اسے واپس لیا جانا چاہیے۔ کھیتی کو ڈاؤن کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم کسانوں کو بڑھا دیں گے، ہم کہہ رہے ہیں کہ آپ مت بڑھاؤ، ہم جتنے ہیں اتنا ہی رہنا ہے۔ اب ہمیں مودی پر بھروسہ نہیں ہے۔ ہماری بہن بیٹیوں کے بارے میں پیسے لے کر شامل ہونے کی بات کہی جا رہی ہے، ہمیں بدنام کر رہے ہیں۔ مظاہرہ میں پنجاب کے ہمارے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ خالصتانی ہونے کی بات بھی غلط ہے۔ اب ہمارا بھروسہ ٹوٹ چکا ہے۔ ہم بھی دہلی جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم بھی کسان ہیں اور اپنی آواز بلند کریں گے۔

گراؤنڈ رپورٹ: گاؤں گاؤں میں پھیلنے لگی ہے ’کسان تحریک‘ کی تپش

واضح رہے کہ پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے تینوں نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی میں لاکھوں کسان گزشتہ دس دنوں سے مختلف مقامات پر جمع ہیں اور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دہلی میں پنجاب اور ہریانہ کے ان کسانوں کی حمایت میں ’بھارتیہ کسان یونین‘ سمیت تمام کسان تنظیمیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ کسانوں کی حکومت کے ساتھ بات چیت جاری ہے لیکن ابھی تک بات چیت بے نتیجہ ہی رہی ہے۔ اب اس زرعی قوانین کے تئیں گاؤں-گاؤں میں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کسانوں میں ایک غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اس لیے اب کسانوں کا ایک بڑا طبقہ دہلی سے ملحق علاقوں میں ہو رہے مظاہروں میں شامل ہونے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔