مغربی بنگال کے دشمن ہیں گورنر جگدیپ دھنکر: ترنمول کانگریس

جاگو بنگلہ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ بنگال کے گورنر دھنکر ریاست کی فلاح و بہبود کی اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

جگدیپ دھنکھر، تصویر آئی اے این ایس
جگدیپ دھنکھر، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

کولکاتا: مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس اور گورنر جگدیپ دھنکر کے درمیان رسہ کشی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ترنمول نے اپنے ترجمان ”جاگو بنگلہ“ میں گورنر کی سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں بنگال کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔

جاگو بنگلہ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ بنگال کے گورنر دھنکر ریاست کی فلاح و بہبود کی اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بنگال کے دشمن ہیں اور گورنر کے عہدے کے لئے نااہل بھی ہیں۔ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ”گورنر کا عہدہ آئینی اور معزز ہے لیکن اگر کوئی شخص اس پر بیٹھ کر کسی سیاسی پارٹی کے لیے کام کرتا ہے، تو یہ اس آئینی عہدے کی توہین ہے اور اس کی مخالفت کی جانی چاہیے اور گورنر دھنکر یہی کام کر رہے ہیں۔'' ان کا کام صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے آکسیجن بننا ہے۔


ادارئیے میں بنگال کے گورنر دھنکر کے شمالی بنگال کے دورے پر بھی طنز کیا گیا ہے۔ اداریہ میں پارٹی نے لکھا ہے کہ ''پہاڑوں پر امن لوٹ آیا ہے اور ممتا بنرجی کے دور حکومت میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر وہاں پر امن اور بلا روک ٹوک گھوم رہے ہیں۔ حکومت کرتے تو وہ ایسا نہیں کر پاتے، کیونکہ تب احتجاج کی آگ میں پہاڑ جل رہا تھا۔ جب بی جے پی لیڈر شمالی بنگال کی علاحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو گورنر کچھ نہیں کہتے۔ پھر ان کا کوئی ٹوئٹ نہیں ہوتا۔ وہ مسلسل آئینی دائرے سے باہر کام کر رہے ہیں۔ وہ گورنر کے عہدے کے لیے نااہل ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں۔ دھنکر بنگال کا دشمن ہے۔''

قابل ذکر ہے کہ مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکر حکمراں جماعت اور ریاستی حکومت کے کام کرنے کے انداز پر لگاتار سوال اٹھا رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر تعلیم برتیا باسو نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر تقرری کے بارے میں قانونی پہلوؤں کی جانچ کی جا رہی ہے۔ اس پر طنز کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ وزیر کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ممتا کو گورنر بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔