ہریانہ کی الگ اسمبلی کے لیے حکومت نے چنڈی گڑھ میں پسند کی زمین

ہریانہ کی اپنی الگ اسمبلی کے لیے حکومت نے زمین پسند کر لی ہے، کچھ کاغذی کارروائی کے بعد اسے جلد ہی آخری شکل دے دی جائے گی۔

ہریانہ اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
ہریانہ اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ کی اپنی الگ اسمبلی کے لیے حکومت نے زمین پسند کر لی ہے۔ کچھ رسمی چیزیں پوری کرنے کے بعد اسے جلد ہی آخری شکل دے دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہریانہ کے مزید ایک قدم آگے بڑھنے سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ ابھی تک ایک ہی عمارت میں چل رہی پنجاب اور ہریانہ اسمبلی کی علیحدگی جلد ہی ہو جائے گی۔

چنڈی گڑھ میں کلاگرام کے پاس منیماجرا میں خالی پڑی 55 ایکڑ زمین ہریانہ حکومت کو اسمبلی کی عمارت کے لیے ٹھیک لگ رہی ہے۔ اس میں سے حکومت کو 10 ایکڑ زمین اسمبلی کے لیے چاہیے۔ چنڈی گڑھ انتظامیہ نے حکومت کو رسمی طور پر تجویز بھی دے دی ہے۔ آج وزیر اعلیٰ اور ہریانہ اسمبلی اسپیکر گیان چند گپتا نے چنڈی گڑھ انتظامیہ کے افسروں کے ساتھ اس علاقہ کا دورہ کر اپنی طرف سے منظوری دے دی ہے۔ لیکن یہ وہ زمین نہیں ہے جو ہریانہ حکومت چاہتی تھی۔ ہریانہ اسمبلی سکریٹریٹ کی خواہش تھی کہ کیپٹل کمپلیکس میں واقع اسمبلی کے پاس ہی کہیں زمین اسے مل جائے۔ ہائی کورٹ کے سامنے سکریٹریٹ کی طرف یا وزیر اعلیٰ رہائش کے سامنے یا پھر موجودہ اسمبلی عمارت کے پیچھے زمین کی خواہش تھی۔ اس کے پیچھے دلیل یہ تھی کہ یہاں زمین ملنے سے پورا کیپٹل کمپلیکس ایک جگہ ہو جائے گا۔ یہیں پر سکریٹریٹ اور ہائی کورٹ بھی ہیں۔ ایسا نہ ہو پانے کی وجہ بتاتے ہوئے اسمبلی اسپیکر کا کہنا ہے کہ یہ پورا کمپلیکس یونیسکو کے تحفظ میں ہے۔ یونیسکو کی ایک ٹیم یہاں آئی تھی اور اس نے کہا کہ اس کمپلیکس کی حالت میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا۔


قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں ابھی تک 90 اراکین اسمبلی ہیں، لیکن 2026 میں ہونے والی حد بندی کے بعد اراکین اسمبلی کی تعداد 115 سے 126 تک ہو سکتی ہے۔ ابھی حالت یہ ہے کہ 90 اراکین اسمبلی کے بیٹھنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ اگر اسمبلی کی نئی عمارت نہیں بنی تو معمول کے کام میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لیکن اسمبلی اسپیکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی عمارت بننے کے بعد بھی پرانی بلڈنگ میں ان کا دعویٰ برقرار رہے گا۔

واضح رہے کہ ہریانہ نے تقریباً 9 ماہ پہلے اپنی اسمبلی کی نئی عمارت کے لیے مرکزی حکومت سے 10 ایکڑ زمین دستیاب کرانے کی گزارش کی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط بھی لکھا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ 2026 کی مجوزہ حد بندی میں ہریانہ میں اراکین اسمبلی کی تعداد 126 ہو سکتی ہے۔ ہریانہ کے 55 سال میں ابھی تک اسے اسمبلی کی عمارت کے بنٹوارے کے مطابق طے حصہ نہیں ملا ہے۔ ہریانہ اسمبلی کے بڑے حصے پر پنجاب نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔


دلیل یہ بھی تھی کہ ہریانہ اسمبلی سکریٹریٹ کے تقریباً 350 ملازمین ہیں، لیکن ان کے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ نہیں ہے۔ اسمبلی میں ایک کمرے میں تین سے چار برانچ کو ملایا گیا ہے اور کچھ کمروں میں کیبن بنا کر 7-7 فرسٹ کلاس کے افسران کے بیٹھنے کا انتظام کرنا پڑ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔