زرعی قوانین سے مایوس ہیں کسانوں کے بیٹے، زراعت سے ٹوٹ گیا دل!

کسانوں کے بیٹے اپنے مستقبل کو لے کر مایوس ہیں کیونکہ نئے زرعی قوانین نے کسانوں کو ایک طرح سے یرغمال بنانے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ اس ماحول میں زراعت کے تئیں نئی نسل کی دلچسپی بھی ختم ہو گئی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

دہلی میں چل رہی کسان تحریک کے درمیان ہی کسان فیملی کے نوجوانوں میں مستقبل کو لے کر فکر کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہ بے چین ہیں اپنے تاریک مستقبل کو لے کر کیونکہ انھیں سب کچھ دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ بھلے ہی ہندوستان کی راجدھانی میں وہ رہا ہے، لیکن اس کا اثر گاؤں گاؤں میں دکھائی پڑ رہا ہے۔ کسانوں کے چہرے اداس ہیں اور کسانوں کے بیٹوں نے تقریباً ذہن تیار کر لیا ہے کہ وہ مستقبل میں کھیتی نہیں کریں گے۔ نوجوانوں میں کھیتی کو لے کر منفی احساس پیدا ہو رہے ہیں اور وہ سوال کر رہے ہیں ہم کھیتی کیوں اور کس کے لیے کریں!

18 سال کے اجے رندھاوا کہتے ہیں کہ حال فی الحال وہ کھیتی کے نام سے اوب چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’میرے دادا محنتی کسان رہے ہیں۔ ایم اے کرنے کے بعد میرے والد بھی پوری طرح کھیتی کے لیے خود سپرد رہے، لیکن میں نے ذہن بنا لیا ہے کہ میں کھیتی نہیں کروں گا۔ ہر طرف کسانوں کی بدحالی نظر آ رہی ہے۔ میں ٹی وی دیکھتا ہوں تو مجھے برا لگتا ہے۔ میں نے اپنے والد کو بے حد سردی میں نصف رات کو کھیت میں پانی چلانے کے لیے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے برا لگتا ہے جب کسان کو اپنا حق مانگنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس ملک میں ’جے جوان، جے کسان‘ کا کا نعرہ دیا جاتا ہے، لیکن کسانوں کی حالت اب سب کو دکھائی دے رہی ہے۔ کسان کو ’اَن داتا‘ کہتے ہیں اور اب اسے برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ میرے دادا اور والد 24 گھنٹے بہت محنت کرتے ہیں اور پھر انھیں اپنی فصل کو فروخت کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ کسی کو کسانوں کی پروا نہیں ہے۔ مجھے اب افسوس ہوتا ہے۔ میں کھیتی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘


مظفر نگر کے میرا پور، یعنی جاٹوں کے محلے میں رہنے والے اجے کی بات سن کر نزدیک کھڑے ان کے والد بھی سر ہلاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ہاں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے، یہ کھیتی نہیں کرے گا۔ اب اس میں رکھا ہی کیا ہے؟‘‘

اسی طرح بی ایس سی کر چکے بے روزگار نوجوان سوربھ سنٹو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ جو کسانوں کے بڑے بڑے گھر دکھائی دیتے ہیں، یہ سب قرض لے کر بنے ہیں۔ کسان قرض دار ہیں۔ اس کے پاس بالکل پیسہ نہیں ہے۔‘‘ سنٹو بتاتے ہیں کہ وہ چار ایکڑ کے کسان ہیں۔ وہ سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’مان لیجیے ہم ایک بیگھا میں ٹماٹر اگاتے ہیں اور صرف 20 کلو فصل آتی ہے تو کسان کا کیا ہوگا۔ فصل کی پیداوار کم ہوئی تو کسان کے پاس کوئی متبادل نہیں بچے گا۔ جب میری ملازمت نہیں لگی تو میں کھیتی کرنے لگا۔ یہ بہت مشکل ہے۔ حکومت کو ہماری بدحالی کا خیال نہیں ہے۔ اب وہ ایسا قانون لائی ہے جس میں ہم اپنی فصل فروخت بھی نہیں کر پائیں گے۔‘‘ ان کے پاس کھڑے ویبھو کہتے ہیں جب بسکٹ پر بھی ایم آر پی ہوتا ہے تو کسان کی فصل کا ایم ایس پی کیوں نہیں ہونا چاہیے۔

سنٹو بتاتے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ لائے زرعی قوانین کسانوں کی بربادی کے لیے تیار کیے گئے کاغذ ہیں۔ وہ مزید سمجھاتے ہیں کہ ’’مان لیجیے یہاں ٹماٹر پانچ روپے کلو فروخت ہو رہا ہے اور ناگپور میں 25 روپے کلو، ایک کسان کے کھیت سے 100 کلو ٹماٹر ہوا، اب وہ اسے یہاں فروخت کرے گا تو 500 روپے کا ہوگا، ناگپور لے کر جائے گا تو کرایہ میں دب جائے گا۔ سب کچھ کارپوریٹ کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ وہ ہماری فصلوں کی قیمت طے کریں گے۔ لڑائی بالکل درست ہے۔ مطالبہ جائز ہے اور کسانوں کے مفاد میں ہے۔‘‘


ایم اے کر چکے اونیش کالکھنڈی زراعت کے بارے میں کافی جانکاری رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت یہ بتائے کہ اس نے زرعی اصلاحات پر کیا کام کیا؟ اسرائیل کی طرز پر اس نے کھیتی میں کتنے ایجادات کیے؟ دو مہینے سے زراعت کے لیے نہر میں پانی نہیں آیا ہے۔ اس کا کیا کریں اور گنے کی پرچی اور پیمنٹ کہاں ہے، اس کا جواب دیں۔ وہ 2022 میں کسانوں کی آمدنی دوگنی کر رہے تھے، اس کا کیا ہوا؟

اونیش کہتے ہیں کہ آمدنی تو دوگنی نہیں ہوئی بلکہ کسانوں پر قرض دوگنا ہو گیا۔ اب یہ تینوں قوانین کسانی کو ختم ہی کر دیں گے۔ سب کچھ کنٹرول حکومت کے کارپوریٹ دوستوں کے ہاتھ میں جانے والا ہے۔ ہم بچے نہیں ہیں، سب سمجھ رہے ہیں۔ کارپوریٹ سارا پیاز خرید لیں گے اور دھیرے دھیرے مارکیٹ میں اپنی شرطوں پر فروخت کریں گے۔ ایک بار مہنگا کر کے خرید لیں گے اور اس کے بعد کسان اپنی فصل کو فروخت کرنے کے لیے بھی گڑگڑائے گا۔ کہانی ساری سمجھ میں آ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔