کسان تحریک: تجربہ کار کسان لیڈروں نے بدلی پالیسی، نوجوانوں کو بھیجا جا رہا گھر

کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت سے دھرنے پر بیٹھے نوجوانوں کے چہروں پر ’کچھ نہ کر پانے کا غصہ‘ نظر آنے لگا تھا۔ وہ اپنے لیڈروں سے بار بار کہتے تھے کہ ہم کچھ کرتے کیوں نہیں، کچھ کرنا چاہیے۔

کسان، تصویر یو این آئی
کسان، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ میں نوجوانوں کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔ دہلی بارڈرس پر سیکورٹی انتظامات کو دیکھنا ہو یا لنگروں میں خدمت پیش کرنا، ان سبھی جگہوں پر نوجوانوں کے تجربے اور جوش کی ضرورت پڑی۔ لیکن نوجوانوں کا استعمال اب گاؤں میں زیادہ کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا بارڈرس سے نوجوانوں کو گھر یا گاؤں بھیجنے کا سلسلہ تیز ہو رہا ہے۔ کچھ وقت تک دوسری جگہ رہنے کے بعد انھیں پھر بلائے جانے کی پالیسی پر کام کیا جا رہا ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق لگاتار بارڈر پر بیٹھے رہنے سے نوجوانوں کی ذہنی حالت پر اثر پڑ رہا تھا۔ مظاہرین کسانوں کی مانیں تو طویل مدت سے زیادہ کچھ نہ کرنے سے نوجوانوں میں غصہ پیدا ہو رہا تھا جس کا اثر ان کے چہروں بھی ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ اپنے لیڈروں سے بار بار کہتے تھے کہ ہم کچھ کرتے کیوں نہیں، کچھ کرنا چاہیے۔ بارڈر پر بیٹھے کسان لیڈروں کے مطابق نوجوانوں کی توانائی کو صحیح جگہ استعمال کرنے کے لیے ہم نے انھیں بارڈر سے دوسری جگہوں پر بھیجا ہے تاکہ ان کی دماغی حالت معمول پر رہے۔


دہلی بارڈر پر بیٹھے کسان لیڈر جگتار سنگھ باجوا کا کہنا ہے کہ ’’نوجوان طویل مدت سے اس تحریک میں شامل ہیں۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ نوجوانوں کا استعمال گاؤں میں کیا جائے۔ گاؤں میں ہو رہی مہاپنچایتوں میں نوجوانوں کا استعمال ہو، جن لوگوں کو تحریک کے بارے میں جانکاری نہیں ہے ان تک نوجوانوں کے ذریعہ باتیں پہنچائی جائیں،اور اچھی بات یہ ہے کہ مہاپنچایتوں کی تیاریوں میں نوجوان پیش پیش ہیں۔‘‘

جگتار سنگھ نے مزید بتایا کہ ’’نوجوانوں کی توانائی کو مثبت جگہ پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے جب نوجوان اکٹھا ہو کر ہم سے کہتے تھے کہ ہم سوتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، تقریر سنتے ہیں، اور پھر سو جاتے ہیں۔ ہمیں کچھ کرنا بھی چاہیے۔ کئی بار آپس میں ہی نوجوان الجھ جاتے تھے جس کی وجہ سے ہم لوگوں نے انھیں گاؤں میں کام پر لگایا ہے۔ حالانکہ بارڈر پر نوجوانوں کی ہمیشہ ضرورت ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔