جادو کی جھپّی کا اثر، مودی کے اپنے بھی کر رہے راہل کی تعریف

کانگریس صدر نے جادو کی جھپی دے کر وزیر اعظم کے اندر بھری نفرت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان کے دل سے یہ نفرت ختم نہیں ہوئی تو پھر ہندوستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔

لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد وزیر اعظم کو جادو کی جھپّی دیتے ہوئے راہل گاندھی
لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد وزیر اعظم کو جادو کی جھپّی دیتے ہوئے راہل گاندھی
user

تنویر احمد

کانگریس صدر راہل گاندھی نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران لوک سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ’جادو کی جھپّی‘ کیا دی، پورے ملک میں زلزلہ آ گیا۔ مودی کے چاہنے والے اس لیے غصے سے تلملائے جا رہے تھے کہ جب وہ گلے ملنے کے لیے اپنی سیٹ سے نہیں اٹھے تو جھک کر راہل نے انھیں کیسے گلے لگا لیا، اور راہل کے خیر خواہ اس لیے خوشی سے جھومے جا رہے تھے کہ انا میں ڈوبے وزیر اعظم کو ’جادو کی جھپّی‘ دے کر راہل گاندھی نے ماسٹر اسٹروک کھیلا اور پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ کانگریس محبت کے سہارے بی جے پی کو شکست دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب وزیر اعظم چاہے اس ’جادو کی جھپّی‘ کو ’گلے پڑنا‘ کہتے پھریں یا ’بچپنا‘ بھکتوں کو چھوڑ کر پورا ہندوستان راہل کی واہ واہی کر رہا ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مودی کے ’اپنے‘ لوگ بھی راہل کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ پا رہے ہیں۔

ویسے کانگریس صدر نے 20 جولائی کو جب چھوٹے سے بریک کے بعد لوک سبھا میں اپنی تقریر دوبارہ شروع کی تھی تبھی کہہ دیا تھا کہ وہ ایوان کے باہر گئے تو اپوزیشن لیڈران کے ساتھ ساتھ کچھ بی جے پی لیڈروں نے بھی ان کی تعریف کی۔ اس وقت انھوں نے کسی کا نام تو نہیں بتایا تھا لیکن جس طرح سے 21 جولائی کو بی جے پی رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے کانگریس صدر کی تعریفوں کے پل باندھے اور تحریک عدم اعتماد کی بحث کے اگلے ہی دن این ڈی اے میں شامل شیو سینا نے اپنے ترجمان ’سامنا‘ میں راہل کو شاباشی دی، اسے دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ مودی بریگیڈ میں شامل کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو بھلے ہی وزیر اعظم کے خوف سے راہل کی تعریف نہ کر پاتے ہوں لیکن دل ہی دل انھیں پسند کرتے ہیں۔

حالانکہ شتروگھن سنہا مودی حکومت کی پالیسیوں اور بی جے پی کے سینئر لیڈروں کو کنارہ کش کیے جانے سے اکثر ناراض نظر آئے ہیں لیکن جس انداز میں انھوں نے راہل کی تعریف کی یقیناً نریندر مودی کے سینے پر سانپ لوٹ گیا ہوگا۔ مسٹر سنہا جب یہ ٹوئٹ کرتے ہیں کہ ’’اسدالدین اویسی نے بہت تلخ حملہ کیا، طارق انور اور فاروق عبداللہ نے ایک جیسے تیر چھوڑے۔ ان سب کی تقریر مختصر اور موزوں تھی۔ یہ سب قابل تعریف ہیں، لیکن اگر کسی نے محفل لوٹی تو وہ راہل گاندھی تھے‘‘، تو یقینا نریندر مودی ہی نہیں ان کے بھکت بھی تلملا کر رہ گئے ہوں گے۔ پھر اس کے بعد شتروگھن سنہا کا یہ ٹوئٹ بھی کم زہرناک نہیں تھا کہ ’’کچھ دانشور لوگوں نے دلائل اور اعداد و شمار کے ساتھ اپنی بات رکھی تو کچھ لوگوں نے اچھی ڈائیلاگ بازی کی۔‘‘ اس جملے میں ’ڈائیلاگ بازی‘ کا لفظ کس کے لیے استعمال کیا گیا ہے یہ ظاہر تو نہیں لیکن ’سمجھدار را اشارہ کافی است‘۔

نریندر مودی کے لیے یہ بات بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے کہ یوگا گرو بابا رام دیو جو ہمیشہ ان کی تعریف کرتے رہے ہیں، انھوں نے بھی میڈیا میں راہل کی تعریف کر دی۔ رام دیو نے تو ’جھپّی‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اس کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس کا مذاق بنانا چاہیے۔‘‘ بابا رام دیو مزید کہتے ہیں کہ ’’اختلاف اصولوں اور پالیسیوں پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ نفرت پر مبنی۔‘‘ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ راہل نے وزیر اعظم کو اس لیے گلے لگایا کیونکہ وہ محبت کا پیغام دینا چاہتے تھے، اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ خیر، جو بھی ہو لیکن یوگا گرو کے بیان کی ٹیس وزیر اعظم کو ضرور پہنچی ہوگی۔

جھپّی کی تعریف تو شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی بھی کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں نے راہل کے ذریعہ مودی کو گلے لگائے جانے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی گزارش کی اور کہا کہ راہل گاندھی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں نہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف۔ شیو سینا نے اپنے اخبار ’سامنا‘ میں راہل کے لیے ’’بھائی تو تو چھا گیا‘‘ جیسے الفاظ لکھنے سے پہلے تحریک عدم اعتماد کی بحث کے دوران راہل کی تقریر کے بعد بھی میڈیا میں ان کی تعریف کی اور جھپّی کو مودی کے لیے ’جھٹکا‘ قرار دیا۔ اب تو کانگریس سوشل میڈیا پر راہل کی اس جھپّی کو خوب فروغ دے رہی ہے اور یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس طرح دلوں سے نفرت کو نکال کر محبت بھرا جا سکتا ہے۔ جادو کی جھپّی پر مبنی ایک ویڈیو انڈین یوتھ کانگریس نے بھی اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کیا ہے۔

بہر حال، لوک سبھا میں کانگریس صدر کے ذریعہ وزیر اعظم کو دی گئی ’جادو کی جھپّی‘ فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ میں سنجے دَت کی جھپی کی طرح سپر ہٹ ہو چکی ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ منا بھائی ایم بی بی ایس میں سنجے دَت ایک سین میں جمی شیرگل کو انتہائی شدت کے ساتھ جھپی دیتے ہیں، لیکن کینسر کے مرض میں مبتلا جمی پر اس جھپی کا اثر نہیں ہوتا اور وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم بھی اس وقت ایک مرض میں مبتلا نظر آ رہے ہیں جسے ’نفرت‘ کہتے ہیں۔ یہ نفرت لوگوں کو اندر ہی اندر ہلاکت کی طرف ڈھکیلتی ہے۔ راہل گاندھی نے جادو کی جھپّی دے کر اس نفرت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، اگر یہ ختم نہیں ہوئی تو اس کا منفی اثر وزیر اعظم پر تو جو پڑنا ہوگا وہ پڑے گا ہی، ہندوستان کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Jul 2018, 4:32 PM