دہلی اسمبلی انتخابات 2020: بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے بڑا چیلنج

گزشتہ تقریبا ایک سال میں پانچ ریاست گنوا چکی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لئے دہلی اسمبلی انتخابات ایک بڑا چیلنج ہوگا جہاں وہ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے اقتدار سے باہر ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: گزشتہ تقریبا ایک سال میں پانچ ریاست گنوا چکی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لئے دہلی اسمبلی انتخابات ایک بڑا چیلنج ہوگا جہاں وہ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے اقتدار سے باہر ہے۔ موجودہ دہلی اسمبلی انتخابات کی مدت 22 فروری تک ہے اور اس کے انتخابات کے پروگرام کا اعلان کبھی بھی ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل-مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں تین سو سے زیادہ سیٹیں جیت کر مسلسل دوسری بار مرکز میں اقتدار میں آنے والی بی جے پی پر دہلی میں اپنی کارکردگی دوہرانے کا بھاری دباؤ ہوگا۔ اس کے لیے اسے دہلی میں گزشتہ پانچ سال سے حکومت چلا رہی اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی (عآپ) کے چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ کانگریس بھی ان انتخابات میں پوری طاقت کے ساتھ اترنے کی تیاری میں ہے۔

سال 2014 کے عام انتخابات کی طرح گزشتہ سال بھی لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی شاندار رہی ہے لیکن گزشتہ 12-13 مہینے میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کوسخت جھٹکا لگا ہے۔ سال 2018 کے آخر میں تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کانگریس نے اس سے اقتدار چھین لی تھی۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد گزشتہ سال تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ بی جے پی ہریانہ میں جن نائیك جنتا پارٹی سے انتخابات کے بعد سمجھوتہ کرکے حکومت بچانے میں کامیاب رہی لیکن مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسے اقتدار سے باہر ہونا پڑا۔


نئے سال میں اس کاپہلا انتخابی چیلنج دہلی ہے۔ لوک سبھا انتخابات -2019میں اس کی کارکردگی شاندار رہی تھی اور اس نے دہلی کی تمام سات سیٹوں پر جیت دہرائی تھی لیکن اسمبلی انتخابات میں اسے یہ کارکردگی دہرانے کیلئے بہت محنت کرنا پڑی۔ دہلی کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے70 میں سے 67 سیٹیں جیتیں تھیں۔’ عآپ ‘کی آندھی میں مخالفین کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ بی جے پی صرف تین سیٹ ہی جیت پائی تھی جبکہ کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھلا تھا۔ گزشتہ انتخابات میں’ عآپ‘ کو 54 فیصد ووٹ ملے تھے۔ عآپ کو ملنے والی زبردست حمایت کے باوجود بی جے پی 33 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ اس الیکشن میں کانگریس کو سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔ اس کو تقریباً نو فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

اس انتخابات میں’ عآپ ‘کے پاس وزیر اعلی اروند کجریوال کے طور پر جانا مانا چہرہ ہے اور اس نے ’اچھے بیتےپانچ سال لگے رہو کجریوال‘ کا نعرہ بھی بلند کر دیاہے لیکن بی جے پی اور کانگریس کے پاس وزیر اعلی کے عہدہ کے لئے کوئی چہرہ ہی نہیں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی بی جے پی کے سامنے اس کا بحران تھا۔ اس نے آخری وقت میں انڈین پولیس سروس کی سابق افسر کرن بیدی کو وزیر اعلی امیدوار بنانے کااعلان کیا تھا لیکن وہ بی جے پی کی نیا پار لگانا تو دور اپنی سیٹ بھی نہیں بچا پائی تھیں۔


سال 1993 اسمبلی قیام کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں بی جے پی نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور مدن لال کھرانہ کی قیادت میں اس کی حکومت بنی جو پورے پانچ سال چلی اگرچہ اس دوران تین وزیر اعلی بدلے گئے۔ سال 1998 کے انتخابات میں کانگریس نے اسے اقتدار سے باہر کر دیا اورآنجہانی شیلا دکشت وزیر اعلی بنی۔ ان کی قیادت میں کانگریس نے اگلے دونوں انتخابات جیتے اور شیلا دیکشت پندرہ سال تک دہلی کی وزیر اعلی رہیں۔ کانگریس کو 2013 میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس کی حمایت سے اروند کجریوال نے حکومت بنائی تھی۔ کجریوال نے 49 دن حکومت چلانے کے بعد اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا اور تقریبا ایک سال تک دہلی میں صدر راج لگا رہا تھا۔

کانگریس نے گزشتہ سال دہلی کی باگ ڈور ایک بار پھر شیلا دکشت کے ہاتھوں سونپی تھی اور وہ خود بھی شمال مشرقی دہلی سے لوک سبھا انتخابات کیلئے میدان میں اتری تھیں اور منوج تواری کے ہاتھوں شکست ملی۔ گزشتہ جولائی میں دیکشت کی موت کے بعد پارٹی کے سامنے دوبارہ قیادت کا بحران کھڑا ہو گیا تھا۔تقریباً دو ماہ تک مختلف ناموں پر چلی بحث اور کافی کھینچ تان کے بعد پارٹی نے سینئر مقامی لیڈر سبھاش چوپڑا کو صدر اور سابق کرکٹر کیرتی آزاد کو انتخابی مہم کمیٹی کا صدر بنایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔