شرد پوار کے خط کا سہارا لے کر بی جے پی عوام کو گمراہ کر رہی ہے: این سی پی

این سی پی ترجمان نواب ملک نے پارٹی دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شردپوار نے ملک کے وزرائے اعلیٰ کو جو خط لکھا تھا وہ 2010 میں لکھا تھا اور 165 صفحات پر مشتمل تھا۔

این سی پی لیڈر نواب ملک / تصویر آئی اے این ایس
این سی پی لیڈر نواب ملک / تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

ممبئی: یو پی اے دورِ حکومت میں وزیرزراعت کی حیثیت سے شردپوار کے ذریعے ملک کے وزرائے اعلیٰ اے پی ایم سی قانون میں اصلاح کے لیے تحریر کیے گئے خط کے ایک حصے کو بی جے پی کے لوگ سوشل میڈیا پر وائرل کرکے عوام میں یہ گمراہی پھیلارہے ہیں کہ شردپوار موجودہ زرعی قوانین کے حامی ہیں۔ جبکہ شردپوار کے خط اور اس موجودہ زرعی قوانین کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ بی جے پی کی جانب سے عوام کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ وضاحت آج یہاں راشٹروادی پارٹی نے کی ہے-

پارٹی کے قومی ترجمان نواب ملک نے پارٹی دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شردپوار نے ملک کے وزرائے اعلیٰ کو جو خط لکھا تھا وہ 2010 میں لکھا تھا اور وہ 165 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس لحاظ سے وہ ایک ہدایت نامہ تھا جس کے مطابق وزرائے اعلیٰ کو اپنی اپنی ریاستوں میں اے پی ایم سی قانون میں اصلاح کرنی تھی۔ مگر اب جبکہ پورے ملک کا کسان بی جے پی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر اترا ہوا ہے تو بی جے پی کو اس خط کی یاد آئی اور اس نے اس کو اس 165 صفحے کے خط سے 2 صفحے اپنے مطلب کے ملے جسے وہ لوگوں میں گمراہی پھیلانے کے استعمال کررہی ہے۔


نواب ملک نے کہا کہ ماڈل اے پی ایم سی 2003 قانون واجپئی حکومت نے بنایا تھا جسے ملک کے کئی وزراء نے اپنے یہاں لاگو نہیں کیا تھا۔ یو پی اے کی حکومت آنے کے بعد پوار صاحب کو زراعت کا محکمہ سونپا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے اس قانون کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے اس قانون میں کسانوں کے لیے مفید دفعات پر ریاستی حکومتوں سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد انہیں لاگو کرنے ساتھ اے پی ایم سی میں اصلاح کرنے کی ہدایت دی تھی۔ بی جے پی اب اسی خط کے دو صفحات کو عوام میں اس گمراہی کے ساتھ پھیلارہی ہے کہ پوار صاحب ان قوانین کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ پورا صاحب اور این سی پی ابتداء سے ان قوانین کی مخالف رہی ہے کہ کیونکہ یہ قوانین صریح طور پر کسانوں کے مفادات کے خلاف ہیں یو این آئ اے اے اے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔