کشمیر بلدیاتی انتخاب: بائیکاٹ سے بی جے پی کو فائدہ، وادی میں جیت کا کھولا کھاتہ

بی جے پی ایک طویل انتظار اور کشمکش کے بعد کشمیر میں اپنی جیت کا کھاتہ کھولنے میں کامیاب ہوگئی۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سرینگر: جموں وکشمیر میں رواں ماہ 4 مرحلوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے دو اہم علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی دوری وادئ کشمیر میں اب تک ایک جیت کے لئے تشنہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لئے بیساکھی ثابت ہوئی ہے۔ بی جے پی ایک طویل انتظار اور کشمکش کے بعد کشمیر میں اپنی جیت کا کھاتہ کھولنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

ہفتہ کی صبح جب بلدیاتی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سنٹر (ایس کے آئی سی سی) کے لانز میں بیٹھے صحافیوں تک یہ اطلاع پہنچی کہ سری نگر میونسپل کارپوریشن (ایس یم سی) کے حلقہ نمبر 74 باغ مہتاب شنکر پورہ سے بھاجپا امیدوار بشیر احمد میر انتخابی میدان مارنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ نمبر 74 کے لئے 6 پولنگ مراکز قائم کئے گئے تھے۔ اگرچہ اس بلدیاتی حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد قریب 5 ہزار تھی، تاہم صرف 9 ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ انتخابی نتائج کے مطابق ان 9 ووٹوں میں سے 8 ووٹ بشیر احمد کے حق میں پڑے ہیں۔ ان کے مد مقابل آزاد امیدوار محمد اشرف بٹ کو صرف ایک ووٹ ملا جو اُن کا اپنا ووٹ ہوسکتا ہے۔ حلقہ نمبر 74 کے لئے 8 اکتوبر کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت ووٹ ڈالے گئے تھے۔

بی جے پی کے فاتح امیدوار بشیر احمد نے کاونٹنگ مرکز سے باہر آنے پر نامہ نگاروں کو بتایا ’آپ کو معلوم ہے کہ اس حلقہ میں 9 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ان میں سے 8 ووٹ مجھے ملے اور میرے مدمقابل کو ایک ووٹ ملا‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’میں اُن لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ دیا۔ ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ووٹ نہیں دیا اور اپنے گھروں سے نہیں نکلے۔ اپنے حلقے کے مسائل حل کرنا میری اولین ترجیح ہوگی۔ میرا اگلا پروگرام بی جے پی کے ٹکٹ پر اسمبلی انتخابات جیتنا ہے‘۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بشیر احمد کی جیت پر اپنے ردعمل میں ٹوئٹر پر لکھا ’اس کے گھر والوں کا اس کے حق میں ووٹ ڈالنا کافی تھا‘۔ بشیر احمد میر کے بقول انہوں نے حال ہی میں نیشنل کانفرنس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کشمیر میں فتح کا کھاتہ کھولنے سے قبل مرکز میں برسراقتدار بی جے پی نے خطہ لداخ کے ضلع کرگل میں رواں برس اگست کے اواخر میں ہونے والے لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل (کرگل) کے چوتھے عام انتخابات میں زانسکر کی چھا نشست پر کامیابی حاصل کر کے ان انتخابات میں اپنی جیت کا کھاتہ کھول دیا تھا۔ چھا کی نشست پر بی جے پی امیدوار سٹینزن لکپا نے جیت درج کی تھی۔ وہ 30 ووٹوں کے معمولی فرق سے جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

بی جے پی نے حلقہ نمبر 74 پر بی جے پی امیدوار کی جیت کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ پارٹی کے جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے جموں میں پارٹی دفتر ترکوٹہ نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا ’ایس ایم سی کے حلقہ نمبر 74 میں 12 امیدوار میدان میں تھے۔ بی جے پی کے امیدوار نے 36 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ بی جے پی کے لئے ایک بہت بڑی جیت ہے۔ بی جے پی نے بہت اچھا آغاز کیا ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے تھے کہ بی جے پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے ہیں، وہ ذرا یہ انتخابی نتائج دیکھ لیں۔ بی جے پی لڑ کر جیت رہی ہے‘۔

بتادیں کہ ریاست کی دو بڑی علاقائی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ دونوں جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ مرکزی سرکار پہلے دفعہ 35 اے پر اپنا موقف واضح کرے اور پھر وہ کسی انتخابی عمل کا حصہ بنیں گی۔ قومی سطح کی دو جماعتیں سی پی آئی ایم اور بی ایس پی نے بھی ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

کشمیر کے سینئر صحافی احمد علی فیاض کے مطابق علاقائی جماعتیں این سی اور پی ڈی پی کی بلدیاتی انتخابات سے دوری اور علیحدگی پسند جماعتوں کی طرف سے دی گئی ’لاتعلقی اختیار کرنے کی کال‘ کا یہ نتیجہ نکلا کہ وادی کے سات اضلاع میں بھاجپا کے 100 امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ ان کے مطابق اننت ناگ میں 30، بارہمولہ میں 24، شوپیان میں 13، بڈگام میں 11، کولگام میں 10، پلوامہ میں 9 اور کپوارہ میں 3 بھاجپا امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار پائے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بی جے پی ریاست میں سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں مشن 44 (یعنی 87 اراکین پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کم از کم 44 نشستوں کے حصول) کے ہدف کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔ تاہم وادی کشمیر میں قریب دو درجن امیدوار میدان میں اتارنے کے باوجود پارٹی کو کسی ایک بھی نشست پر جیت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اس نے بعد ازاں پی ڈی پی کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */