بابری مسجد-رام مندر کیس: آئینی بنچ سے جسٹس للت نے خود کو کیا الگ، آئندہ سماعت 29 جنوری کو

جسٹس یو یو للت نے بابری مسجد تنازعہ سے جڑے ایک کیس میں کلیان سنگھ کی پیروی کی تھی، اور سینئر وکیل راجیو دھون کے ذریعہ اس کی یاد دہانی کرائے جانے کے بعد جسٹس للت نے خود کو آئینی بنچ سے علیحدہ کر لیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ 10 جنوری کو بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ پر جب سماعت کی تاریخ طے کرنے بیٹھی تو مسلم عرضی دہندہ کے وکیل راجیو دھون کے اعتراض کے پیش نظر جسٹس یو یو للت نے ججوں کی اس آئینی بنچ سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ دراصل سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ جسٹس یو یو للت بابری مسجد تنازعہ سے متعلق ایک دیگر معاملے میں کلیان سنگھ کی پیروی کرنے عدالت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس نکتہ کو پیش کیے جانے کے بعد جسٹس للت نے خود کو ججوں کی آئینی بنچ سے خود کو الگ رکھنے کی بات کہی۔ کچھ دیر کے غور و خوض کے بعد آئینی بنچ کی صدارت کرنے والے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ سبھی ججوں کی رائے یہی ہے کہ جسٹس للت کو اس معاملہ میں سماعت کا حصہ بننا مناسب نہیں، اس لیے آگے کی تاریخ طے کر کے چھوڑ دیا جائے۔ بعد ازاں بنچ نے ایودھیا کیس پر سماعت کے لیے 29 جنوری کی تاریخ متعین کی۔

اس سے قبل جب جمعرات کی صبح جب دونوں فریقین کے وکیل سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے اور آئینی بنچ کی موجودگی میں راجیو دھون نے بحث شروع کیے جانے کی بات کہی تو چیف جسٹس رنجن گوئی نے واضح کیا کہ فی الحال سماعت کی تاریخ طے کی جائے گی اور یہ فیصلہ لیا جائے گا کہ سماعت کب تک ختم ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ آج سماعت نہیں ہوگی اور کیس سے متعلق کارروائی کا تعین ہوگا۔ بعد ازاں جب جسٹس للت نے آئینی بنچ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ لے لیا تو چیف جسٹس نے سماعت کو ملتوی کرتے ہوئے 29 جنوری کی تاریخ طے کر دی اور ساتھ ہی یہ فیصلہ لیا گیا کہ اس بنچ میں اب کس جج کی شمولیت ہوگی، اس کا فیصلہ جلد لیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ 4 جنوری کو سپریم کورٹ نے 5 ججوں پر مبنی آئینی بنچ کے ذریعہ ایودھیا کیس کی سماعت کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ 8 جنوری کو اس آئینی بنچ کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس این وی رمن، جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ اور جسٹس یو یو للت کو شامل کیا گیا تھا۔ اب جب کہ یویو للت کا نام اس بنچ سے ہٹ گیا ہے تو امید کی جا رہی ہے کہ ایک ہفتے کے اندر آئینی بنچ میں شامل کیے جانے والے نئے جج کا نام ظاہر کر دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔