آسام شہریت معاملہ: دستاویز جمع کرنے کی تاریخ میں توسیع

سپریم کورٹ نے مثاثرین کو بڑی راحت دیتے ہوئے شہریت دستاویز کی کٹ آف تاریخ میں اضافہ کر دیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند نے اسے بے مثال کامیابی قرار دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: آسام شہریت اور این آرسی کے معاملوں سے جڑی تین اہم عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف آر نریمان پر مشتمل این آر سی مانیٹرنگ کی دورکنی بنچ نے مثاثرین کو بڑی راحت دیتے ہوئے کہا کہ کلیم اور آبجیکشن کے جاری موجودہ عمل میں آج تک کے تمام قانونی دستاویزات قابل قبول ہوں گے اس کے ساتھ ہی کلیم اور آبجیکشن کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کرتے ہوئے اسے 15 دسمبر 2018 سے بڑھا کر 15 جنوری 2019 تک کردیا۔

واضح ہو کہ آج ان معاملوں میں پیروی کے لئے جمعیۃ علماء ہند اور آمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئر ایڈوکیت اندرا جے سنگھ اور وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی عدالت میں پیش ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ آج سپریم کورٹ میں آسام شہریت سے متعلق جو تین درخواستیں پیش ہوئی تھیں ان میں پہلی درخواست جمعیۃ علماء ہند اور دوسری آمسو کی طرف سے تھی جس میں کہا گیا تھا کہ Lift B یعنی لنکڈ ڈاکیومنٹ جو کلیم اور آبجیکشن کے لئے ثبوت کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں اس کی آخری تاریخ 31 اگست 2015 تھی، کیوںکہ این آرسی کی بھی آخری تاریخ 31 اگست 2015 تھی۔

جمعیۃ علماء ہند کا یہ مطالبہ تھا کہ ان لنکڈڈاکیومنٹ کی تاریخ بڑھا کر 15 جنوری 2019 تک کردی جائے۔ہو یہ رہا تھا کہ مثلا اگر کسی نے ہائی اسکول پاس کیا ہے یا کسی کی شادی 31 اگست 2015 کی مدت میں ہوئی لیکن کوئی ضرورت نہیں ہونے کی وجہ سے اس کی سند یا سرٹیفیکٹ حاصل نہیں کیا تھا۔ لیکن اب اگر وہ این آر سی میں ثبوت کے طورپر اس دستاویز کو اب نکال کر پیش کررہا تھا تو اسٹیٹ کورڈینیٹر پرتیک ہزیلا اس کو تسلیم نہیں کررہے تھے اور ان کا اصرار تھا کہ 31 اگست 2015 تک کی مدت کے نکالے ہوئے دستاویز ہی منظور ہوں گے۔ اور اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ اشتہار بھی شائع کروادیا تھا جس میں واضح طور پر اعلان موجود تھا کہ 31 اگست 2015 کے بعد کے نکالے ہوئے دستاویز قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس کے خلاف جمعیۃ علماء اور آمسو نے27 نومبر 2018 کوسپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ 31 اگست 2015 کے بعد کے نکالے ہوئے دستاویز بھی قبول کئے جانے چاہیے، بعد ازاں 7دسمبر 2018 کو جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں پھر ذکر کیا اور عدالت سے درخواست کی کہ یہ عرضی بہت اہم ہے اور اس پر جلد سنوائی کی جائے۔ بعد میں 10 دسمبر 2018 کو آسام سرکار نے تیسری درخواست داخل کی جس میں اس نے مطالبہ کیا کہ چوںکہ آسام پنچایت چناؤ کی وجہ سے این آرسی کے کام میں رکاوٹیں آگئی تھیں اس لئے کلیم اور آبجیکشن کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی جائے، سپریم کورٹ نے اس درخواست کومنظور کرتے ہوئے ایک ماہ کی توسیع کردی۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی یکم نومبر 2018کی بحث کے دوران بھی جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے مطالبہ کیا تھا کہ 31ا گست 2015 کے بعد کے متعلقہ دستاویز کو بھی پیش کرنے کی اجازت ملنی چاہیے کیوں کہ دوسرے نئے طریقۂ کار (SOP) میں کہا گیا تھا چوںکہ این آرسی میں درخواست دینے کی آخری تاریخ 31اگست 2015 ہی تھی اس لئے شہریت کے ہر قسم کے ثبوت ودستاویزات 31 اگست 2015 تک کے ہی منظور ہوں گے علاوہ ازیں 28اگست 2018 کی سماعت میں بھی جمعیۃ علما ہند کے وکلا ء نے اس پر اپنا اعتراض درج کراتے ہوئے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ کٹ آف تاریخ بڑھا کر اس تاریخ سے کردی جائے جس تاریخ سے کلیم اور آبجیکشن کا عمل شروع ہوا ہے۔ اس پر عدالت نے پرتیک ہزیلا سے اس پہلو پر غور کرنے کو کہا تھا لیکن پرتیک ہزیلانے جمعیۃ علما ہند کے وفود سے ملنے کے بعد بھی غور کرنے کے بجائے باقاعدہ ایک اشتہارجاری کرکے ا علان کردیا کہ31 اگست 2015 کے بعد نکالے ہوئے دستاویزات قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے جو جمعیۃ علماء ہند کو اس معاملے میں آج ایک بڑی کامیابی ملی ہے جس سے نہ صرف دستاویز ات کی کٹ آف تاریخ میں عدالت نے اضافہ کردیا بلکہ کلیم اور آبجیکشن کی مدت میں بھی ایک ماہ توسیع کردی، اس سے متأثرین کو بلا شبہ بڑی آسانی فراہم ہوجائے گی۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ آسام شہریت تنازعہ کے حل کے تعلق سے یہ فیصلہ ایک بڑی پیش رفت ہے، اور یہ فیصلہ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے جیسا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جو لوگ این آرسی میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں انشاء اللہ وہ لوگ بھی اپنے ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے انشاء الل۔

انہوں نے کہا کہ دستاویزات کی کٹ آف تاریخ میں اضافے سے متأثرین کے لئے این آرسی میں شامل ہونے کی راہ آسان ہوجائے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق این آر سی سے باہر کئے گئے چالیس لاکھ لوگوں میں سے اب تک دس لاکھ لوگوں نے ہی اپنی شہریت کا دعویٰ پیش کیا ہے، اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ دستاویزات کے حصول میں لوگوں کو سخت دقتیں پیش آرہی ہیں، اور اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی طرف سے متأثرین کی کوئی مدد نہیں مل رہی ہے بلکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود ان کے سامنے افسران کی طرف سے ہر روز نئی دقتیں کھڑی کی جارہی ہیں مگر اب فاضل عدالت کے تازہ فیصلے کے بعد تمام متأثرین کوخواہ ہندو ہوں یا مسلمان انہیں اپنی شہریت کے دستاویزات کے حصول میں بلا شبہ آسانیاں پیداہوں گی اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ بہت آسانی سے اپنی شہریت کے قانونی ثبوت پیش کر سکیں گے۔ اور جمعیۃ علماء ہند ہمیشہ کی طرح مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پرتمام لوگوں کی مدد کرے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کی اس فیصلے سے ایک بارپھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس مسئلہ کو لیکر عدالت بہت حساس اورسنجیدہ ہے، اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی مخالفت کے باوجود دستاویزات کی کٹ آف تاریخ میں اضافے کا فیصلہ اس کا ثبوت ہے، مولانا مدنی نے ایک بار پھر آسام کے تمام متاثرین سے یہ اپیل کی کہ وہ کوتاہی نہ برتیں اور این آرسی کے مراکز پر جاکر معینہ مدت کے اندر اپنی درخواستیں جمع کروادیں، جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃعلماء آسام کے وکلاء کی ٹیم اور رضاکاران مراکز پر موجودرہیں گے جہاں وہ متاثرین کی مذہب سے بالا تر ہوکر انسانیت کی بنیاد پر ہر طرح کی قانونی امداد فراہم کریں گے، انہوں نے آخر میں کہا کہ آئندہ بھی جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوگی جمعیۃعلماء ہند متاثرین کی مددکے لئے ہمیشہ کی طرح موجود رہے گی۔ جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا مشتاق عنفر نے بھی اس فیصلے کوانتہائی خوش آئند قرار دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃ علماء آسام روز اول سے آسام شہریت معاملے میں پیش پیش ہے وہ اس کے لئے نہ صرف قانونی جدوجہد کرتی رہی ہے بلکہ زمینی سطح پر بھی اس کے رضاکار متأثرین کی ہر طرح سے مددر کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Dec 2018, 6:07 PM