گراؤنڈ رِپورٹ: پولرائزیشن کی کشتی پر سوار ہو کر ’آسام فتح‘ کی تیاری میں بی جے پی

آسام میں بی جے پی نے اس بار انتخابات کو باہری اور آسامی باشندوں کے درمیان کی لڑائی بنا دیا ہے۔ امت شاہ نے جس طرح بنگلہ دیش سے آئے مسلمانوں کو ’دیمک‘ کہا، اس سے پولرائزیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ایک سیاسی ماہر کے حوالے سے آشیش نندی نے کہا تھا کہ ’’ترقی کا گجرات ماڈل تو کہیں نافذ نہیں کیا گیا، البتہ گجرات کا نفرت ماڈل پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔‘‘ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا یہی فیکٹر بی جے پی کو جہاں تہاں مدد کرتا رہا ہے۔ اور دوسرا فیکٹر ہے اس کی ٹھسا ٹھس بھری ہوئی جیبیں۔

بی جے پی کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے، اور وہ ان انتخابات میں پیسہ، سامان، یہاں تک کہ موٹر سائیکل تک ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے تقسیم کر رہی ہے۔ ’کرشک مکتی سنگرام سمیتی‘ کے لیڈر اور آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ اکھل گوگوئی کہتے ہیں کہ ’’اس بار کے انتخاب میں پیسہ کا خوب کھیل ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کے ہاتھ تو خالی ہیں، ایسے میں ان کی تشہیر بھی پھیکی ہی نظر آ رہی ہے۔ پیسہ تو صرف بی جے پی کے پاس ہے۔ بی جے پی صرف نقدی ہی نہیں بانٹ رہی بلکہ بینر و پوسٹروں پر بھی خوب خرچ کر رہی ہے۔

آسام میں اس بار کے انتخاب کو بی جے پی نے دو بڑے گروپوں کے درمیان کا مقابلہ بنا دیا ہے۔ ایک ہے باہر سے آئے لوگوں کا گروپ اور ایک ہے آسام کے حقیقی باشندوں کا گروپ۔ بی جے پی صدر امت شاہ نے جس طرح بنگلہ دیش سے آئے مسلمانوں کو دیمک قرار دیا ہے اس سے لوگوں کے درمیان پورے مسلم طبقہ کو لے کر ہی ایک طرح کا ماحول بن گیا ہے۔

آسام عموماً سترنگی ثقافت والی ریاست ہے۔ یہاں تقریباً 97 قبائل اور مسلمانوں کا طبقہ رہتا ہے جو آبادی کا تقریباً 34 فیصد ہے۔ انگریزوں کے زمانے سے یہاں کے مسلمان ’بیرون ملکی آبادی‘ کے تمغے سے چھٹکارے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہاں چائے باغانوں میں کام کرنے کے لیے انگریز جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ جیسے وسطی ہندوستان کے علاقوں سے قبائلیوں کو یہاں لے کر آئے تھے۔ اب کئی نسلوں کے بعد یہی لوگ یہاں کے مقامی باشندے بن گئے ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں اصل آسامیوں نے بنگلہ لسانیوں کے یہاں آنے کی مخالفت کرنی شروع کر دی تھی۔ دھیرے دھیرے یہ مخالفت آسامیوں اور بنگلہ لسانیوں کے درمیان جدوجہد میں تبدیل ہوتی گئی۔ 70 اور 80 کی دہائی میں یہ جدوجہد عروج پر پہنچ گئی تھی۔ 1983 میں تو حالات اتنے خراب ہوئے تھے کہ ناگاؤں میں تقریباً 2000 مسلمان مارے گئے تھے۔ اس کے بعد ہی 1985 کا آسام سمجھوتہ ہوا تھا اور ایک قومی شہریت رجسٹر بنانے کی شروعات ہوئی تھی۔

دراصل 14ویں صدی میں بہت سے حقیقی آسامی لوگوں نے اسلام مذہب اختیار کر لیا تھا۔ اس دوران بہت سے بنگالی مسلم کسان یہاں آئے۔ 1971 کے بنگلہ دیش جنگ کے دوران بڑی تعداد میں ہندو اور مسلم پناہ گزینوں کا یہاں آنا ہوا۔ لیکن ایک نسلی اور لسانی جدوجہد کو بی جے پی نے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ہے۔ اکھل گوگوئی بتاتے ہیں کہ ’’اقلیتی مسلمانوں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بی جے پی آسام کے لوگوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگر اس انتخاب میں بی جے پی ہاری تو وہ اپنی ہی ریاست میں اقلیت ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کا سبھی سیٹوں پر قبضہ ہو جائے گا اور وہ سب کانگریس کا حصہ بن جائیں گے۔ اس سے اصل باشندوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے گا۔‘‘

آسام کی زمینی حقیقت کی تصویر بتاتے ہوئے اوپری آسام کے ایک بزنس مین پلو بتاتے ہیں کہ ’’بی جے پی حکومت بننے کے بعد سے سرمئی پہننے والے مسلمان مرد اب سڑکوں پر دکھائی نہیں دیتے۔ پہلے وہ ہر جگہ نظر آتے تھے اور ہم ان سے ڈرتے تھے۔ ہم ان کی شکایت بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سڑک پر کھڑے رہنا کوئی جرم تو ہے نہیں۔ لیکن اب وہ نہیں نظر آتے اور ہم محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‘‘

پلو تنہا نہیں ہیں جو ایسا مانتے ہیں۔ حالانکہ پلو مانتے ہیں کہ بی جے پی کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کرے گی۔ پلو نے این آر سی اور شہریت قانون پر بی جے پی کا رخ دیکھا ہے۔ ان کا سوچنا ہے کہ اس سب میں بدعنوانی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی اسے لگتا ہے کہ بی جے پی کے آنے سے محفوظ رہیں گے۔

دھیان رہے کہ اسی طرح کا پولرائزیشن گجرات میں بھی ہوا تھا۔ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد ہندوؤں کے درمیان یہی جذبہ پھیلایا گیا تھا کہ مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھا دی گئی۔ کچھ اسی طرح کا ماحول اس انتخاب کے دوران آسام ہی نہیں بلکہ پورے شمال مشرق میں بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Apr 2019, 11:09 PM