اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

راجستھان کی سیاست میں ذات پات کی بالادستی کو توڑ کر اقتدار کے عروج تک پہنچنے والے اور سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلنے والے اشوک گہلوت کو راجستھان کی سیاست کا جادوگر کہا جاتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں شاندار کارکردگی کے بعد وزیر اعلیٰ کے چہرے کو لے کر چل رہی قیاس آرائیاں 14 دسمبر کو ختم ہو گئیں۔ کانگریس صدر نے اس ریاست کی کمان سیاست کے ’جادوگر‘ کہے جانے والے اشوک گہلوت کے ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ لیا۔ انتخابی نتیجوں کے بعد ریاست میں وزیر اعلیٰ کے نام پر چلی لمبی کشمکش کے بعد پارٹی نے ریاست کے اسی جادوگر پر بھروسہ ظاہر کیا ہے جو سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کے لیے جانا جاتا ہے۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

دو بار راجستھان کے وزیر اعلیٰ رہ چکے اشوک گہلوت مالی سماج سے تعلق رکھتے ہیں جو پسماندہ طبقہ میں آتا ہے۔ گہلوت کی فیملی کا خاندانی پیشہ کسی زمانے میں جادوگری کا کرتب دکھانا تھا۔ گہلوت کےو الد بھی ایک جادوگر تھے۔ لہٰذا اشوک گہلوت نے بھی جادوگری میں ہاتھ آزمایا، لیکن سیاست کے اسٹیج پر اور ریاست کے ایسے سب سے بڑے لیڈر بن کر نمودار ہوئے جس کا جادو سماج کے ہر طبقہ پر چلتا ہے۔

شروعاتی زندگی کی با ت کریں تو اشوک گہلوت کی پیدائش 3 مئی 1951 کو راجستھان کے جودھپور میں ہوئی۔ گہلوت نے سائنس اور قانون میں گریجویشن اور اقتصادیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی سماجی خدمت اور سیاست میں سرگرم رہے گہلوت کی شادی 27 نومبر 1977 کو سنیتا گہلوت سے ہوئی۔ ایک بیٹا ویبھو گہلوت اور ایک بیٹی سونیا گہلوت کے والد اشوک گہلوت کو سیر و سیاحت بہت پسند ہے اور کہیں بھی سڑک کے کنارے چائے پینے کے شوقین ہیں۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

سماجی زندگی کی بات کریں تو گہلوت نے بنگلہ دیش جنگ کے دوران 1971 میں مغربی بنگال کے بنگاؤں اور 24 پرگنہ ضلعوں میں مہاجر کیمپوں میں متاثرین کی خدمت سے شروعات کی۔ اس کے بعد سیاسی زندگی کانگریس کی طلبا تنظیم این ایس یو آئی سے شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ 70 کی دہائی میں گہلوت پر خود اندرا گاندھی نے سیاست میں آنے کی صلاح دی۔ جس کے بعد گہلوت نے کانگریس کے اندور میں ہوئے سمیلن میں حصہ لیا اور وہیں ان کی ملاقات سنجے گاندھی سے ہوئی۔ سنجے گاندھی گہلوت کی صلاحیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے انھیں راجستھان این ایس یو آئی کا صدر بنا دیا۔ گہلوت 1973 سے 1979 تک راجستھان این ایس یو آئی کے سربراہ رہے اور اس دوران انھوں نے تنظیم کو کافی مضبوط کیا۔ اس کے بعد گہلوت کانگریس کے جودھپور ضلع صدر بنے اور پھر ریاستی کانگریس کے جنرل سکریٹری بھی بنائے گئے۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

کانگریس میں وہ دور نوجوان قیادت کے عروج کا دور تھا۔ کمل ناتھ، دگوجے سنگھ، وائیلار روی، اے کے انٹونی، غلام نبی آزاد کے ساتھ اشوک گہلوت بھی اسی دور میں پارٹی میں ابھر رہے تھے۔ اپنے مزاج کے مطابق گہلوت راجستھان میں ’لو پروفائل‘ رہتے ہوئے کام کرتے رہے۔ لیکن سنجے گاندھی کی طیارہ حادثہ میں موت کے بعد راجیو گاندھی پارٹی میں سرگرم ہوئے۔ اس وقت انھوں نے گہلوت پر بھروسہ ظاہر کرتے ہوئے انھیں مرکز کی اندرا گاندھی حکومت میں وزیر مملکت بنانے کی سفارش کر دی۔ اس کے بعد گہلوت اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور پی وی نرسمہا راؤ کی حکومتوں میں تین بار مرکزی وزیر بنے۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

گہلوت نے اپنا پہلا انتخاب 1980 میں جودھپور لوک سبھا حلقہ سے لڑا اور فتح حاصل کی۔ جودھپور سے وہ پانچ بار یعنی 84-1980، 89-1984، 96-1991، 98-1996 اور 99-1998 میں لوک سبھا پہنچے۔ اس دوران گہلوت ریاست اور مرکز کی حکومتوں میں وزیر رہنے کے ساتھ ہی پارٹی تنظیم میں سرگرم رہے۔ گہلوت کو 3 بار راجستھان ریاستی کانگریس کمیٹی کا صدر رہنے کا فخر حاصل ہے۔ پہلی بار گہلوت محض 34 سال کی عمر میں ہی راجستھان ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر بنائے گئے تھے۔ گہلوت نے 1985 سے 1989، 1994 سے 1997 اور 1997 سے 1999 کے درمیان راجستھان کانگریس کا صدر عہدہ سنبھالا۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

تنظیم سے لے کر حکومت میں تجربہ کے سبب ہی پارٹی نے 1998 میں گہلوت کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کی کمان پہلی بار سونپی۔ ان کی یہ مدت کار دیگر اہم حصولیابیوں کے علاوہ تاریخی خشک قحط مینجمنٹ کے لیے جانا جاتا ہے۔ اسی دور میں راجستھان میں صدی کا سب سے بھیانک قحط پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گہلوت کے بااثر اور مضبوط مینجمنٹ سے قحط متاثرین تک اتنا اناج پہنچایا گیا تھا جتنا اناج وہ لوگ شاید اپنے کھیتوں سے بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ گہلوت کو غریب و بے کس کی تکلیف کو سمجھنے والے لیڈر کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اشوک گہلوت 13 دسمبر 2008 کو دوسری بار راجستھان کے وزیر اعلیٰ بنے۔

راجدھانی دہلی میں آئی این اے مارکیٹ کے ٹھیک سامنے دہلی ہاٹ کی تعمیر کا سہرا گہلوت کو ہی جاتا ہے۔ اس ہاٹ کی تعمیر سے ملک بھر کے باہنر دستکاروں کے بنائے پروڈکٹ بغیر کسی دلال کے سیدھے گاہکوں تک پہنچتے ہیں جس سے ان دستکاریوں کو پھلنے پھولنے کا ایک بڑا ذریعہ ملا۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

راجستھان کی سیاست کے سب سے اہم ذاتیاتی بالادستی کو توڑ کر ایک کمزور مانے جانے والے سماج سے آئے اشوک گہلوت موجودہ وقت میں راجستھان کی سیاست میں سب سے بڑے عوامی لیڈر ہیں۔ گہلوت کی انکساری کے ان کے مخالفین بھی قائل ہیں۔ یہ ان کی انکساری کا ہی جادو ہے کہ راجستھان جیسی ریاست میں جہاں کی سیاست میں کشتریہ، جاٹ، گوجر اور برہمن ہمیشہ سے اثرانداز رہے ہیں، وہاں پسماندہ تصور کیے جانے والے سماج کے گہلوت نے خود کو سب سے بڑے لیڈر کی شکل میں کھڑا کیا۔ ہمیشہ مسکراتے رہنے والے گہلوت ریاست کی سبھی ذاتوں، خصوصاً پسماندہ طبقات میں قبولیت حاصل کر چکے لیڈر ہیںَ یہی وجہ رہی کہ سبھی پہلوؤں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کانگریس صدر راہل گاندھی نے اشوک گہلوت کو تیسری بار ریاست کی کمان سونپ دی ہے۔

اشوک گہلوت: راجستھان کی سیاست کا ’جادوگر‘ جس کی انکساری کے مخالفین بھی قائل

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔