الہ آباد تشدد: جاوید محمد کے جس مکان کو مسمار کیا گیا وہ ان کے نام پر ہے ہی نہیں!

الہ آباد میں جس مکان پر انتظامیہ نے بلڈوزر کے ذریعے انہدامی کارروائی کی وہ دراصل جاوید محمد کے نام پر نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی اہلیہ کے نام ہے اور جس زمین پر یہ تعمیر کیا گیا ہے وہ ان کی آبائی زمین ہے

یو این آئی
یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

الہ آباد: بی جے پی لیڈر کے پیغمبر اسلامؐ پر نازیبا تبصرہ کرنے کے خلاف احتجاج کرنے والی جے این یو کی طالبہ اور سماجی کارکن افرین فاطمہ کے اہل خانہ کو گرفتار کیے جانے کے ایک دن بعد انتظامیہ نے ان کے الہ آباد (پریاگ راج) میں واقع گھر پر بلڈوز چلا دیا۔ الزام ہے کہ انتظامیہ نے اس کارروائی میں نہ تو طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیا اور نہ ہی دستاویزات کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی یہ مکان کس کی ملکیت ہے۔

آفرین فاطمہ کے والد جاوید محمد ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما ہیں اور سی اے اے مخالف تحریک کا ایک نمایاں چہرہ رہے ہیں۔ ان کا نام بھی ان 10 لوگوں میں شامل ہے جنہیں حالیہ دنوں میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں اتر پردیش پولیس نے اہم سازشی قرار دیا ہے۔


رپورٹ کے مطابق فاطمہ کو ان کی بہن اور والدہ کے ساتھ ہفتے کی رات حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں اپنے وکیل سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ کافی کوشش اور بحث کے بعد کارکن سیما آزاد اور ایک خاتون وکیل کو پولیس اسٹیشن میں ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔

سیما آزاد نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ جس گھر کو جاوید محمد کے نام سے منہدم کیا گیا ہے وہ دراصل جاوید کی اہلیہ کا ہے اور انہی کے نام پر ہے۔ انہوں نے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’انتظامیہ نے جاوید محمد کے نام پرانی تاریخ کا نوٹس بھیجا ہے، جبکہ یہ گھر ان کی اہلیہ کے نام ہے اور جس زمین پر یہ بنایا گیا ہے وہ ان کی آبائی جائیداد ہے۔ جاوید کا اس گھر پر کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل 10 مئی کو نوٹس بھیجا گیا تھا اور 24 مئی کو سماعت کے بعد 25 مئی کو حکم جاری کیا گیا ہے لیکن اس پرانے نوٹس اور سماعت وغیرہ کی کوئی تفصیل نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی سرکلر نمبر یا آرڈر نمبر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔


انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’’اس سارے عمل کے بارے میں جاوید کے اہل خانہ کو کوئی خبر نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوٹس جائیداد کے اصل مالک کے نام پر نہیں بھیجا گیا اور اسی نے پورے معاملہ کو مشکوک بنا دیا ہے۔‘‘

انہوں نے لکھا، ’’نوٹس 10 جون کا ہے لیکن اسے 11 جون (ہفتہ) کی رات ان کے دروازے پر چسپاں کیا گیا۔ تاہم، 10 جون سے پولیس اہلکار مسلسل ان کے گھر کے ارد گرد موجود تھے۔ ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ نوٹس جلد بازی میں تیار کر کے رات میں چسپاں کیا گیا تاکہ لواحقین کو قانون کے تحفظ کا کوئی موقع نہ ملے کیونکہ اگر معاملہ عدالت میں جاتا تو سب کچھ سامنے آ جاتا۔ ان تمام حقائق سے واضح ہے کہ یہ ساری کارروائی ایک خاص نیت سے کی گئی ہے۔‘‘

اتوار کو بلڈوزر کی کارروائی سے قبل نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ اتوار کی صبح 11 بجے تک گھر خالی کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ پورے علاقے میں سیکورٹی فورسز کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعہ کو ہی عہدیداران کو ہدایت دے دی تھی کہ ’سماجی مخالف سوچ رکھنے والے عناصر‘ کو سبق سکھایا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Jun 2022, 9:44 AM