مودی حکومت سے ’روزگار‘ پر سوال پوچھنے والا عدنان اب بھی دہشت میں

مظفر نگر میں مودی حکومت کی تنقید کرنے پر بی جے پی کارکنان کے تشدد کا شکار عدنان اب بھی خوف و دہشت میں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب بھی میرے کانوں میں ’دہشت گرد‘ اور ’ملک غدار‘ لفظ گونج رہے ہیں۔

روزگار پر سوال پوچھنے والا عدنان (بائیں): تصویر آس محمد کیف
روزگار پر سوال پوچھنے والا عدنان (بائیں): تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے مظفر نگر میں گزشتہ بدھ کو ایک ٹی وی شو کے دوران مودی حکومت کی تنقید کرنے پر بی جے پی کارکنان کی غنڈہ گردی کا شکار ہوا عدنان تقریباً 48 گھنٹے کے بعد گھر لوٹ آیا ہے۔ شہر کے دیوان سنگھ کالج میں 12ویں کا 17 سالہ عدنان واقعہ کے بعد سے ہی اپنے گھر نہیں لوٹا تھا اور اس کا فون بھی بند آ رہا تھا۔ عدنان کے والد ڈرائیور ہیں اور مظفر نگر کے بجھیڑی گاؤں میں اپنے ماما کے یہاں مقیم ہے۔

عدنان اس وقت بارہویں کا امتحان دے رہا ہے۔ وہ اس واقعہ کو یاد کر کے اب بھی پریشان ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اس دن میں اپنے کالج سے لوٹ رہا تھا تو دیکھا کہ بھیڑ لگی ہوئی ہے اور وہاں صحافی لوگ کھڑے ہیں۔ میں ان کے بیچ چلا گیا۔ روزگار کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر میں نے کہہ دیا کہ مودی حکومت نے کوئی روزگار نہیں دیا۔ میرے پڑوس اور فیملی میں بہت سے لڑکے ہیں جنھوں نے ایم اے، ایم ایس سی جیسی پڑھائی کی ہے لیکن وہ خالی گھوم رہے ہیں۔ میرے اتنا کہتے ہی بی جے پی کے غنڈے مجھے دہشت گرد کہہ کر پیٹنے لگے۔ آر ایل ڈی کے ضلع صدر راجو اہلاوت نے میری جان بچائی۔‘‘

عدنان کے مطابق کچھ لوگوں نے اسے صلاح دی کہ اسے بی جے پی کے لوگوں کی غنڈہ گردی کے خلاف رپورٹ درج کرانی چاہیے۔ مگر اس سے پہلے ہی اسے پیٹنے والے بی جے پی کے لوگ اس کے خلاف سول لائن تھانے میں رپورٹ درج کرانے پہنچ گئے۔ عدنان نے کہا کہ ’’میں نے جو کچھ کہا اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ اگر روزگار ملا ہے تو میرے گاؤں کے لڑکے بے روزگار کیوں گھوم رہے ہیں؟ میری فیملی کے لوگ بھی اس کے بعد ڈر گئے اور انھوں نے مجھے رپورٹ کرنے سے منع کر دیا۔ انھیں لگتا ہے کہ ہماری سماعت نہیں ہوگی۔ الٹے میرے خلاف ہی جھوٹی شکایت پر کارروائی ہو جائے گی۔‘‘

عدنان واقعہ کے تعلق سے بتاتے ہیں کہ ’’ویڈیو میں سبھی ثبوت موجود ہیں، لیکن کسی سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ ‘‘ غالباً یہی وجہ ہے کہ عدنان نے اپنی جان بچانے کے لیے چھپ جانا ہی بہتر سمجھا۔ عدنان کا کہنا ہے کہ پڑھائی پوری کرنے کے بعد وہ کوئی بزنس کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ سرکاری وعدوں سے وہ بری طرح مایوس ہو چکا ہے۔

واقعہ والے دن عدنان کو بچانے والوں میں شامل مقامی سماجوادی پارٹی لیڈر اسد پاشا کے مطابق وہ بھی اس مذاکرہ کا حصہ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ لگاتار تنقید ہونے سے بی جے پی کے لوگ پریشان ہو رہے تھے جس کی وجہ سے ان کی آر ایل ڈی کارکنان سے تلخ بحث ہونے لگی۔ اسی درمیان بی جے پی کے لوگوں نے عدنان کو پیٹنا شروع کر دیا۔ اسد پاشا نے کہا کہ ’’ہم نے بیچ میں گھس کر کسی طرح اسے بچایا۔ بی جے پی کے لوگوں نے اس لڑکے کو بری طرح سے پیٹا۔‘‘

عدنان کے ماما اور بجھیڑی کے سابق پردھان سابر حسن گاڑا اس واقعہ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ’’اب تو یہاں اندھیر نگری، چوپٹ راجہ والا کام ہو رہا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سوال پوچھنے والا نوجوان دو دن سے اپنی جان بچا کر چھپتا پھر رہا ہے اور سرعام اس کی جان لینے کی کوشش کرنے والے سینہ تانے پولس تھانے میں چائے پی رہے ہیں۔‘‘ واقعہ کے بعد دہشت زدہ عدنان ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بتاتے ہیں کہ ’’میرے کان میں اب تک ’دہشت گرد‘ اور ’ملک غدار‘ جیسے لفظ گونج رہے ہیں۔ مجھے پیٹنے والوں نے مجھے دہشت گرد کیوں کہا، یہ ان سے کون پوچھے گا؟ اب تو کوئی شخص مذاکرے میں بھی سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کر پائے گا۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے میری فیملی والے بری طرح خوف زدہ ہیں۔‘‘

غور طلب ہے کہ بدھ کو مظفر نگر کے کمپنی باغ میں ایک ٹی وی چینل کی کھلی بحث کے دوران 12ویں کے طالب علم عدنان نے بے روزگاری کو لے کر سوال اٹھائے تھے۔ اس سے وہاں موجود بی جے پی کارکنان ناراض ہو گئے اور انھوں نے اس کی بری طرح پٹائی کر دی۔ اتنا ہی نہیں، بی جے پی کے لوگوں نے عدنان کو پیٹنے کے بعد اسی کے خلاف سول لائن تھانے میں شکایت بھی درج کرا دی ہے۔ اس معاملے میں پولس نے مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ مقامی افسر ہریش بھدوریا کے مطابق عدنان اگر پولس میں شکایت کرتا ہے تو جانچ کر کے کارروائی کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔