کشمیر: مواصلاتی پابندی کا 57واں دن، طلباء کے مسائل میں روز افزوں اضافہ

طلباء گزشتہ قریب 2 ماہ سے نہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے پڑھائی کرنے سے معذور ہیں بلکہ مختلف اسکالرشپس کے فارم اور ریاست و بیرن ریاست کی یونیورسٹیوں میں داخلہ فارم جمع کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سری نگر: وادی کشمیر میں گزشتہ دو ماہ سے موبائل فون اور انڑنیٹ خدمات پر جاری پابندی سے پرائمری اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء تک کے مشکلات و مسائل میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ جہاں تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں وہیں انتظامیہ کی طرف سے قائم این آئی سی سینٹروں میں انٹرنیٹ تسلی بخش بھی نہیں ہے اور ان میں داخل ہونے کی اجازت بھی مشکل سے ہی دی جاتی ہے۔

وادی کے طلباء گزشتہ قریب دو ماہ سے نہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے پڑھائی کرنے سے معذور ہیں بلکہ مختلف اسکالرشپوں کے فارم اور ریاست و بیرن ریاست کی یونیورسٹیوں میں داخلہ فارم جمع کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ جاوید احمد نامی ایک طالب علم نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ قریب دو ماہ سے انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے طلباء کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے اور انتظامیہ کی طرف سے قائم این آئی سی سینٹرس تسلی بخش نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’وادی میں قریب دو ماہ سے انٹرنیٹ اور موبائل فون خدمات پر جاری پابندی سے طلباء کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، انتظامیہ نے اگرچہ طلباء کے لئے این آئی سی سینٹر قائم کیے ہیں لیکن ان میں بعض اہم ترین ویب سائٹس بند رکھی گئی ہیں ان میں داخل ہونے کی اجازت بھی مشکل سے ہی دی جاتی ہے‘۔


جاوید احمد نے کہا کہ طلباء کو تعلیمی نقصان سے ہی دوچار نہیں ہونا پڑرہا ہے بلکہ بیرون ریاست یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا داخلہ فارم جمع کرنے سے معذور ہیں جس کے باعث انہیں سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

محمد حسین نامی ایک طالب علم نے کہا کہ وادی میں طلباء پری اور پوسٹ میٹرک اسکالر شپ فارم جمع کرنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ اس کے لئے موبائل فون اور انٹرنیٹ کا چلنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں کمونی کیشن پر عائد پابندی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو تعلیمی نقصان سے ہی دوچار نہیں ہونا پڑرہا ہے بلکہ پری اور پوسٹ میٹرک اسکالر شپ کے فارم جمع کرنے سے اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء بھی معذور ہیں کیونکہ فارم جمع کرنے کے لئے موبائل کا چلنا ضروری ہے، فارم جمع کرنے کے دوران موبائل پر او ٹی پی آتا ہے جب موبائل بند ہے تو وہ کہاں سے آئے گا‘۔


عبدالرحمان نامی ایک والد نے کہا کہ میرے بچے کو ہر سال اسکالر شپ ملتا تھا جس سے اس کی پڑھائی کا خرچہ نکلتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’میرا بیٹا ایک پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ ہرسال اس کو اسکالر شپ ملتا تھا جس سے اس کا تعلیم کے خرچے کی کافی حد تک بھر پائی ہوجاتی تھی لیکن امسال وہ فارم جمع کر ہی نہیں پارہا ہے جس سے میرے اوپر بوجھ بڑھ گیا ہے شاید میرے بیٹے کی تعلیم متاثر ہوسکتی ہے‘۔

ادھر این ای ٹی اور جے آر ایف کے لئے فارم جمع کرنے والے طلباء نے کہا کہ وہ فارم جمع ہی نہیں کرپا رہے ہیں جس سے نہ صرف ہماری محنت رائیگاں ہوگی بلکہ تعلیمی مستقبل پر بھی خطرات کی تلوار لٹک رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے ہم نہ اچھی طرح پڑھ پا رہے ہیں اور نہ ہی اب فارم جمع کرسکتے ہیں، ہماری سال بھر کی محنت رائیگاں ہوگی اور ہمارے تعلیمی مستقبل پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے‘۔


واضح رہے کہ وادی کشمیر میں پانچ اگست سے موبائل اور انٹرنیٹ پر لگاتار پابندی عائد ہے جس سے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کو گوناں گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔