اسرائیلی حکومت فلسطینی آبادی کو مسمار کرنے پر بضد

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کی ایک فلسطینی بستی کی مسماری کو محدود وقت لیے مؤخر کر رہے ہیں تاکہ اس حوالے سے وہاں آباد لوگوں سے کسی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

ڈی. ڈبلیو

ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کی آبادی خان الاحمر کی مسماری کے منصوبے پر عالمی رد عمل سامنے آیا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق خان الاحمر کی کچی آبادی میں قریب 180 فلسطینی آباد ہیں اور یہ یروشلم کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ خان الاحمر کی بدو آبادی کو زبردستی وہاں سے بے دخل کیے جانے کے عمل کو جنگی جرم شمار کیا جائے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے آج اتوار 21 اکتوبر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’خان الاحمر کو مسمار کیا جائے گا۔ رپورٹوں کے برعکس میں نے اس کی مسماری غیر معینہ مدت تک کے لیے مؤخر نہیں کی، بلکہ محدود وقت کے لیے مؤخر کی ہے۔‘‘ قبل ازیں میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اس فلسطینی آبادی کی مسماری غیر معینہ مدت تک کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے۔

نیتن یاہو کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’رہائشیوں کے ساتھ معاہدے کے بعد اس آبادی کو مسمار کرنے کی کوشش کے لیے وقت کا تعین کابینہ کرے گی۔‘‘ اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق تاہم یہ محدود ہو گا۔

اسرائیل کی طرف سے قبل ازیں کہا گیا تھا کہ خان الاحمر میں واقع گھروں کو یکم اکتوبر کے بعد کسی بھی وقت مسمار کر دیا جائے گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت خان الاحمر کو مسمار کر کے دراصل اسٹریٹیجک اہمیت کے حوالے سے انتہائی اہم اس مقام پر مزید یہودی آباد کاری کرنا چاہتی ہے۔ یہ آبادی مغربی کنارے کے E1 زون میں واقع ہے جو اس علاقے کو جنوبی اور شمالی نصف حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں اجازت حاصل کیے بغیر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا اور یہ کہ یہ آبادی ہائی وے کے خطرناک حد تک قریب واقع ہے۔

خان الاحمر کے رہائشی قبل ازیں یہ جگہ چھوڑ کر کسی اور جگہ آباد ہونے کے لیے اسرائیلی پیشکشوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے ٹھکرا چکے ہیں۔

اسرائیل نے 1967ء میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی اس علاقے کو اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔