جرمنی میں مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں کمی واقع، جانیں کیوں!

جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف جرائم اور مساجد پر حملوں میں 2018 کے دوران کمی واقع ہوئی ہے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے واقعات کی اصل تعداد منظر عام پر آنے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

جرمنی میں مساجد پر حملوں میں کمی
جرمنی میں مساجد پر حملوں میں کمی
user

ڈی. ڈبلیو

جرمن حکام نے تصدیق کی ہے کہ2017ء کے مقابلے میں 2018ء کے دوران مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نیو اوسنابروکر سائٹنگ نے لکھا ہے کہ گزشتہ برس 813 جبکہ 2017ء میں اسلام مخالف 950 حملوں کی رپورٹ درج کروائی گئی۔

تاہم دوسری جانب ان حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 32 سے بڑھ کر 54 ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ رپورٹ درج کرانے میں سستی یا تاخیر کی وجہ سے ایسے واقعات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

ملک میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے جرائم کی تعداد حقیقتاً کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ اعداد و شمار بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کی جانب سے پارلیمان میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے گئے ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ اس طرح کے تمام حملوں کے پیچھے دائیں بازو کے شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسلم برادری کے خلاف کیے جانے والے جرائم کے دوران مساجد پر نازی علامتی نشانات بنائے گئے، مسلمانوں کو دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے، ان کے ساتھ بدکلامی کی گئی، املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور نفرت کا اظہار کیا گیا۔

جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے رہنما ایمن مازییک نے برلن حکومت سے ایک نمائندہ تنظیم بنانے کا مطالبہ کیا ہے، جو مسلم برادری کے خلاف رونما ہونے والے ان واقعات کا جائزہ لے سکے۔ ان کے بقول نفرت انگیزی پر مبنی حملوں میں کمی کی ایک وجہ مسلم مہاجرین کی جرمنی آمد میں کمی بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Apr 2019, 8:10 PM