سری لنکا کے بعد بنگلہ دیش پر معاشی بحران کا سایہ، کاروباری خسارہ میں لگاتار اضافہ

بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق درآمدات پر ہونے والا خرچ بڑھا ہے لیکن اس کے مقابلے برآمدات سے ہونے والی آمدنی نہیں بڑھی ہے، اس وجہ سے کاروباری گھاٹا لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیشی جھنڈا، تصویر آئی اے این ایس
بنگلہ دیشی جھنڈا، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سری لنکا میں موجودہ معاشی بحران سے کوئی ناواقف نہیں ہے۔ لیکن اب اس کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش بھی کچھ اسی راہ پر جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے بیرون ملکی کرنسی ذخیرہ یعنی فوریکس ریزروس میں لگاتار گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بین الاقوامی بازار میں کموڈیٹی، ایندھن، مال ڈھلائی اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اچھال کے سبب بنگلہ دیش کا خرچ برائے درآمدات بڑھا ہے۔ جولائی 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان بنگلہ دیش کے ذریعہ سامانوں پر کیے جانے والے خرچ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق درآمدات پر ہونے والا خرچ بڑھا ہے لیکن اس کے مقابلے برآمدات سے ہونے والی آمدنی نہیں بڑھی ہے۔ اس کی وجہ سے کاروباری گھاٹا لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ درآمدات پر زیادہ ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، اس مقابلے برآمدات سے بیرون ملکی کرنسی حاصل نہیں ہوا ہے جس کے سبب فوریکس ریزروس میں کمی آ رہی ہے۔


جو میڈیا رپورٹس سامنے آ رہی ہیں اس میں فوریکس ریزروس میں لگاتار گراوٹ کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ جتنا فوریکس ریزروس بچا ہے اس کے ذریعہ صرف 5 مہینے کے لیے ہی درآمدات ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے گا۔ اگر کموڈٹی، کروڈ اور خوردنی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو پانچ مہینے سے پہلے بھی یہ فنڈ ختم ہو سکتا ہے۔ 22-2021 کے جولائی سے مارچ کے درمیان بنگلہ دیش میں 22 ارب ڈالر کے صنعتی خام مال کی درآمد ہوئی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 54 فیصد زیادہ ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب درآمدات بل 87 فیصد بڑھی ہے۔ صارف پروڈکٹس کی درآمدات پر 41 فیصد درآمدات بل بڑھا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ درآمدات پر خرچ بڑھتا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی درآمدات کا ہدف 22-2021 مالی سال کے 10 مہینوں میں ہی پورا ہو گیا۔ بنگلہ دیش نے 43.34 ارب ڈالر کے پروڈکٹس کی درآمد کی جو گزشتہ سال سے 35 فیصد زیادہ ہے۔ جولائی 2021 سے اپریل 2022 کے درمیان گارمینٹس ایکسپورٹس، چمڑے اور اس سے بنے پروڈکٹس کی درآمد بڑھ کر ایک ارب ڈالر سے اوپر پہنچی ہے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ ڈالر کی قیمتوں میں بینک اور اوپن مارکیٹ میں 8 روپے کے قریب فرق ہے، اس کے سبب لوگ مہاجر بنگلہ دیشی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملکی کرنسی بھیج رہے ہیں جس سے مرکزی بینک کے پاس بیرون ملکی کرنسی کی کمی آئی ہے۔ بنگلہ دیش میں مرکزی بینک کے مطابق 21-2020 میں مہاجرین نے 26 ارب ڈالر سے زیادہ فوریکس ریزروس بھیجا تھا جو 22-2021 میں گھٹ کر 17 ارب ڈالر کے قریب رہ گیا ہے۔


کاروباری خسارہ بڑھنے سے بنگلہ دیش میں ریزرو بینک کو 5 ارب ڈالر سے زیادہ اپنے فوریکس ریزروس سے خرچ کرنا پڑا۔ ڈالر کے مقابلے مقامی کرنسی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ مرکزی بینک نے ٹکا اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 86.7 ٹکا طے کیا ہے لیکن بینک درآمد کنندگان سے 95 ٹکا وصول کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے درآمد سامان کی قیمتیں بڑھی ہیں اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ڈالر بحران سے نمٹنے کے لیے لگژری مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگائی ہے اور سرکاری افسران کے بیرون ملک سفر کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی غیر ضروری منصوبوں پر عارضی طور پر روک لگ سکتی ہے۔ فی الحال بنگلہ دیش کے پاس 42 ارب ڈالر کا فوریکس ریزروس ہے۔ لیکن آئی ایم ایف بنگلہ دیش پر بیرون ملکی کرنسی کا صحیح طریقے سے شمار کرنے کا دباؤ بنا رہا ہے۔ اگر بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی بات مانتا ہے تو بنگلہ دیش کے فوریکس ریزروس میں 7 سے 8 ارب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے، جس سے معاشی بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */