جرم کو مذہب کی نظر سے کیوں دیکھا جاتا ہے!

آصفہ ایک انسان نہیں تھی بلکہ ایک خاص مذہب اور ذات سے تعلق رکھنے والے مردوں کی ملکیت تھی اور اس کے ساتھ بے رحمی سے زنا بالجبر انتقام لینے کا ان کا ایک طریقہ تھا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

مرنال پانڈے

ہندوستانی شہریوں کی آزادی اور مساوات کے بارے میں ہمارے ملک سازوں نے ہندوستان کے آئین میں جو کچھ بھی التزامات کئے ہیں انہیں کٹھوعہ کے بکروال طبقہ کی 8 سالہ بچی اور یو پی کے اناؤ ضلع کی نابالغ خاتون کی آبروریزی نے درہم برہم کر دیاہے۔ ان واقعات سے ہم اس زمینی حقیقت سے بھی روبرو ہوئے ہیں جو گھناؤنی اور بدترین ہے۔

رواں سال جنوری میں کٹھوعہ کی رہائشی آصفہ کو اغوا کیا گیا اور ایک مندر میں بےرحمی سے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس کے تین مہینے بعد ایک غریب خاندان سے وابستہ خاتون کی مبینہ طور پر ایک طاقتور رہنما کی طرف سے آبروریزی کی گئی اور جب اس نے مزحمت کی تو رہنما کے لٹھیت گروہ نے بھی اس کے ساتھ یہی کیا۔ جب اس کے والد نے رہنما کے خلاف اپنی زبان کھولی تو اس کے گروہ نے انہیں زدو کوب کیا اور جیل بھجوا دیا گیا۔ اگلے دن پراسرار طریقے سے متاثرہ کے والد کی موت ہو گئی۔

ان دونوں معاملات میں ملزمان کے تعقات برسر اقتدار جماعت سے ہیں ، جو کہ مرکز کے اقتدار پر بھی قابض ہے۔ جموں و کشمیر میں مخلوط حکومت میں شامل بی جے پی کے ارکان نے پہلے تو اس واقعہ سے انکار کیا اور جب ریاستی پولس نے پورے معاملے کا پردہ فاش کر دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے جائز ٹھہرانے کی کوشش کرنی چاہی کہ متاثرہ کے طبقہ نے ’ان کی‘ زمین پر قبضہ کر کے اس پر مکان تعمیر کر لئے ہیں۔ اس کے بعد جموں کے وکلاء اور مختلف رہنماؤں نے اپنے ’لوگوں‘ کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دئے ، جن میں مندر کا وہ پجاری بھی شامل ہے جو متاثرہ کے اغوا میں ملوث تھا۔

مرکز میں بر سر اقتدار جماعت اس معاملہ پر اس وقت تک مکمل طور پر خاموشی اختیار کئے رہی جب تک کہ پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کی جانب سے مبینہ طور پر عصمت دری کی ایک اور واردات منظر عام پر نہیں آ گئی۔ اس بار یہ واقعہ فرقہ وارانہ طور سے حساس یو پی میں ہوا جہاں کےوزیراعلی یوگی آدیتہ ناتھ کی شناخت اعتدال پسند جمہوری شخص کے طور پر نہیں ہوتی۔ جس طرح کی توقع تھی انہوں نے اس واردات کے ملزم کا پارٹی کے دیگر معاونین کی طرح ہی بچاؤ کیا۔ غیر معمولی طور پر لکیر کی فقیر پارٹی کے ترجمان اور خاتون وزراء کی جانب سے جو تلخ جواب منظر عام پر آئے وہ یہ تھے کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیں۔

آبروریزی کے یہ دونوں معاملات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جنسی تفریق، مذہب اور ذات یہ سب مل کر ہندوستان میں ہر عمر کی خواتین کے حال و مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے 8 سال کی بچی کی آبروریزی کی اور بعد میں اس کے سر کو پتھروں سے کچل دیا ان کے لئے آصفہ ایک انسان نہیں تھی بلکہ ایک خاص مذہب اور ذات سے تعلق رکھنے والے مردوں کی ملکیت تھی اور اس کے ساتھ بے رحمی سے زنا بالجبر انتقام لینے کا ان کا ایک طریقہ تھا۔ اناؤ کی نابالغ لڑکی کی اجتماعی آبروریزی اور اس کے والد کا قتل بھی انتقامی کارروائی کے طور پر ہوا۔ (بقول ایک ملزم) کس طرح ان ’چھوٹے لوگوں‘ نے پولس اسٹیشن میں عصمت دری کی رپورٹ لکھوانے کی ہمت کی۔

مسئلہ یہ ہے اور دیگر خواتین کا تجربہ بھی یہی ہے کہ عصمت دری کے خلاف قانون میں تمام ترامیم کے باوجود نئے قانون کو ہندوستان میں لاگو کرنا اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب مجرم ایک طاقتور شخص ہوتا ہے اور اس کے سر پر طاقتور لابی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جموں کے وکلاء کا آصفہ کے قتل کے ملزمان کی حمایت میں اترنا ، مذہبی نعرے لگانا ، مجرموں کی طرف سے قانون کو بالائے طاق رکھ دینے کے مساوی ہے۔ اسی طرح سے یوپی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اور ان کے خاندان کی حمایت (ایک رکن اسمبلی نے تو حقارت سے یہاں تک کہہ دیا کہ تین بچوں کی ماں کے ساتھ کون عصمت دری کرے گا؟) مبینہ زانیوں کو کیمرے کے سامنے مسکرانے اور الزامات کا مذاق اڑانے میں مدد کرتا ہے ۔ ہندوستان میں عصمت دری کے جرم کو ابھی تک عدالت میں مردوں کے نظریہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کو کسی اور کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا بلکہ خود جسٹس لیلا سیٹھ نے اپنی آخری کتاب ’ٹاکنگ جسٹس‘ میں اٹھایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کورٹ میں عصمت دری کے معاملے ہمیشہ تعطل کے شکار ہوتے رہ سکتے ہیں۔ (کیا عصمت دری ثابت ہو چکی ہے ؟ متاثرہ کی کیا عمر ہے؟ مجرم کی آٹوپسی رپورٹ میں کیا کہا گیا؟ کیا ڈاکٹر ’ان کا‘تھا یا تعصب سے پُر تھا؟ کون میڈیکلی طریقے سےتین بچوں کی ماں سے عصمت دری کو ثابت کر سکتا ہے؟ )

پھر اس میں کچھ دوسری چیزیں بھی آ سکتی ہیں جو بیمار سماج کی ذہنیت کوسامنے لاتے ہیں۔ جیسے کشمیر وہ جگہ ہے جہاں سے ’ہمیں‘ نکالا گیا ہے۔ کیمرے کے سامنے ایک خاتون کہہ رہی ہیں ’’اگر ہم کھانا کھا رہے ہیں اور کوئی ہمارا کھانا چھین لے تو ہم کیا اسے مار یں گے نہیں؟‘‘ اس کے علاوہ بھی متعصب ذہنیت کا انکشاف ہو رہا تھا۔مثلاً وہ پاکستان کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں۔ نہیں، نہیں، وہ بنجارے ہندوستان حامی ہیں ، لیکن کشمیر کے لوگ تیزی سے ان کی سوچ کو تبدیل کر رہے ہیں۔

حقیقتاً کوئی قانون مرد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی خاتون کی عصمت دری کرے لیکن یہ دونوں معاملات ہمیں بتاتے ہیں کہ عصمت دری کے قانون نے غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچیوں سے مردوں کی غیر قانونی رسائی پر پابندی نہیں عائد کی ہے۔ کوئی سماج کسی طبقہ کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کو ’سبق سکھانے کے لئے‘ایک بچی کی عصمت دری کرے۔ حالانکہ یہ ضرور ی نہیں رہ گیا ہے ،کیونکہ قانون کی سمجھ رکھنے والے وکلاء اس کے باوجود زانیوں کی حمایت کرتے ہوئے سڑکوں پر آئیں گے اور ریاست کو ٹھپ کر دیں گے۔

کوئی بھی قانون عصمت دری کی متاثرہ کو خاموش نہیں کراتا۔ لیکن اناؤ کی متاثرہ اور اس کے خاندان کی طرف سے خاموشی توڑنے کا کیا انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس واقعہ بعد اس علاقے کے دیگر متاثرین خاموشی اختیار کر لیں گے۔ اگرمعاملہ درج بھی ہو جائے تو اس میں بھی سیاست ہوگی۔ متاثرہ کے کردار پر کیچڑ اچھالا جائے گا اور اسے گالیاں دی جائیں گی اور یہ کہا جائے گا کہ تین بچوں کی ماں کسی معروف شخص کی طرف سے ریپ کئے جانے کے قابل نہیں ہے۔

اگر شر مندہ کردینے والےجرائم کی مسلسل ہو رہی اس چیر پھاڑ کو نہیں روکا گیا تو یہ اقتدار کے نشہ میں چور لوگوں کو ان تمام افراد کی زندگی میں داخل ہونے اور انہیں غلط ٹھہرانے کا موقع فراہم کرے گا جنہیں وہ ’علیحدہ‘ تصور کرتے ہیں۔ میں آج ان زانیوں پر غم و غصہ کے ساتھ لکھ رہی ہوں ، کسی خاتون یا ہندو کے طور پر نہیں بلکہ انصاف کی ایک حامی کے طور پر۔ جیسا کہ مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا ’’کہیں بھی ہو رہی ناانصافی ہر جگہ ہو رہے انصاف کے لئے خطرہ ہے۔‘‘ اس سے سچی بات کبھی نہیں کہی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Apr 2018, 2:07 PM
/* */