شکریہ وزرائے محترم واقعی اقلیتیں بہت محفوظ ہیں!

اقلیتوں کو لاحق خطرات پر اکثریت نے تشویش کا اظہار  کیا ہے اور مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ تمام مذاہب کے ماننے ولوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے اور اس کا پرچار کرنے کی آزادی دیں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے عیسائیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ اقلیتیں ہندوستان میں جتنی محفوظ ہیں کسی اور ملک میں نہیں ہیں۔ مودی حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ایجنڈے پر کاربند ہے اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے موجودہ حکومت میں اقلیتوں کے لیے کیے جانے والے فلاحی اقدامات کا بھی ذکر کیا۔

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں اور یہاں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان وزرا نے دہلی کے آرک بشپ انل جوزف کوٹو کے ایک خط کے جواب میں یہ دعویٰ کیا ہے۔ آرک بشپ نے ملک کے موجودہ سیاسی حالات کو پریشان کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس وقت ملک کی جمہوریت اور سیکورلزم خطرے میں ہیں۔ انھوں نے اپنے مذہب کے تمام پیشواؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کی بھلائی کے لیے دعا کریں اور ہر جمعہ کو روزہ رکھیں۔

دہلی کے آرک بشپ ایسے خیالات ظاہر کرنے والے تنہا عیسائی پیشوا نہیں ہیں۔ ان کے خط کے بعد عیسائیوں کی کل ہند تنظیم ’’کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا‘‘ کے صدر اوسوالڈ گریشیاس نے بھی اظہار تشویش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اقلیتوں میں زبردست بے چینی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اقلیتیں خوف زدہ ہیں لیکن حالیہ دنوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی وجہ سے وہ تشویش زدہ صرور ہیں۔ انھوں نے کئی مثالیں بھی دیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزرائے اعلی کو اقلیتوں کے خلاف ہونے والے واقعات پر بولنا چاہیے اور ان کی مذمت کرنی چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں ملک کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں فکرمندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد شخصیات اور اداروں کی جانب سے بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ ان چار برسوں میں ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشیں ہوئی ہیں اور سیاسی فائدہ کے لیے خوف و ہراس والا ماحول بنایا گیا ہے۔

اقلیتی امور کے وزیر نے بہت اچھا کیا کہ انھوں نے عیسائیوں کے ایک وفد سے ملاقات کرکے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہندوستان کی اقلیتیں دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔ اگر وہ یہ بات نہ سمجھاتے تو بھلا ہم لوگ کیسے جان پاتے کہ ہم تو بہت مزے میں ہیں۔ ہمارے اوپر کوئی حملہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔ ہمیں کسی بھی پلیٹ فارم پر نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ہم راج ناتھ جی کے بھی شکر گزار ہیں کہ انھوں نے یہ بتا کر ہمارے اور ملک کی تمام اقلیتوں کے علم میں اضافہ کیا ہے کہ ہم بہت محفوظ ہیں۔ ہم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ ہم بلا وجہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ شکریہ مختار عباس نقوی صاحب اور راج ناتھ سنگھ صاحب۔

جی ہاں آپ لوگوں نے بجا فرمایا کہ ہندوستان میں اقلیتیں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ محفوظ ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ کیا دنیا کا کوئی اور ایسا ملک ہے جہاں فریج کھول کر دیکھا جاتا ہے کہ تم کیا کھا رہے ہو اور اگر فریج میں گوشت مل جائے تو خاندان کے رہنما کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کیا دنیا کا کوئی ایسا ملک ہے جہاں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں پر مشتعل بھیڑ حملہ آور ہو اور انھیں اتنا زدو کوب کرے کہ وہ مر جائیں۔ کیا دنیا میں ایسا کوئی ملک ہوگا جہاں ایک بزرگ گائے پالک کو گائے کا اسمگلر بتاکر دوڑا دوڑا کر مارا جائے یہاں تک کہ اس کی موت ہو جائے۔ کیا ایسا کوئی ملک ہے جہاں ٹرینوں میں ایک مخصوص شناخت کے افراد کا سفر کرنا مخدوش ہو۔ جہاں محض ٹوپی پہننے پر نوجوان کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا جائے۔

دنیا میں ایسا کوئی ملک ہوگا جہاں دو دلوں کی محبت کو لو جہاد کا نام دیا جائے اور اسے روکنے کے لیے دوسرے مذہب کے شخص کو کلہاڑی سے ہلاک کر دیا جائے اور پھر اس پر تیل چھڑک کر اسے نذر آتش کر دیا جائے۔ کیا کوئی ملک ایسا ہوگا جہاں نچلی ذات کے لوگوں کو نیم عریاں کرکے کوڑے لگائے جائیں۔ کیا ایسا کوئی ملک ہے جہاں کسی دلت کو چوری کے الزام میں باندھ کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جائے۔ کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں گھوڑے پر چڑھنے کی پاداش میں کسی دلت کو ہلاک کر دیا جائے۔ جی نہیں دنیا میں کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں ہوگا جہاں عوام کو اتنی آزادی ملی ہوئی ہو۔ جہاں جینے کی بھی آزادی ہو اور مرنے کی بھی۔ بلکہ مارنے کی بھی۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوگا جہاں اس قسم کے سنگین جرائم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ کارروائی کی جائے تو مظلوموں کے خلاف کی جائے۔ واقعی ہم تو مختار عباس نقوی اور راج ناتھ سنگھ کے قربان ہو گئے کہ انھوں نے ہمیں اتنی بڑی بات بتا دی اور ہماری آنکھیں کھول دیں۔

ارے ہمارے تو وزیر اعظم بھی بڑے بھلے مانش ہیں۔ وہ کہاں چاہتے ہیں کہ یہاں اقلیتوں کو ستایا جائے، ان کو مارا پیٹا جائے اور انھیں مختلف بہانوں سے نشانہ بنایا جائے۔ جبھی تو جب اقلیتی فرقہ کے کسی شخص کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وزیر اعظم پر اس واقعہ کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اتنا گہرا کہ ان کے بولنے کی طاقت جواب دے جاتی ہے۔ وہ بیچارے اس واقعہ کی مذمت تک نہیں کر پاتے۔ صحیح ہے کہ وہ تو سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اگر کچھ لوگ راہ سے بھٹک جائیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔

آرک بشپ کے خط پر اتنا شدید رد عمل ہونا کہ کئی کئی دنوں تک نیوز چینلوں پر بحث چلتی رہی، فطری ہے۔ آخر ان کو اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ایسی بات کریں۔ حکومت کی جانب سے اور بی جے پی ترجمانوں کی جانب سے جو شدید قسم کا رد عمل ظاہر کیا گیا ہے وہ بجا ہے۔ آخر بشپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ملک کے موجودہ حالات پر زبان کھولیں۔ کیا انھیں نہیں معلوم کہ وہ اگر بولیں گے تو چرچ پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگ جائے گا۔ اس خط کے بارے میں یہ تو کہا گیا کہ ویٹی کن کے اشارے پر خط لکھا گیا ہے لیکن شکر ہے کہ ان کو پاکستان بھیجنے کی بات نہیں کہی گئی۔ چلیے، پاکستان نہیں تو ویٹی کن ہی بھیج دیتے۔ لیکن انھیںکیوں بھیجا جائے گا۔ کیا وہ کوئی مسلمان ہیں۔ ہاں کسی مسلمان نے اگر یہ بات کہی ہوتی تو سابقہ مواقع کی مانند اس بار بھی پورا سنگھ پریوار مل کر اس کو پاکستان لے جا کر چھوڑ آتا۔

بہر حال یہ تو ایک عیسائی رہنما تھے جنھوں نے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ کے صدر براک اوبامہ بھی اقلیتوں کو لاحق خطرات پر اظہار تشویش کر چکے ہیں اور حکومت کو مشورہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ دستور کی دفعہ 25 کو عملی جامہ پہنائے جس میں تمام مذاہب کے ماننے ولوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے اور اس کا پرچار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ حکومت کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ انھیں اگر اپنے ہم وطنوں کی باتیں بری لگتی ہیں تو کم از کم عالمی رہنماؤں کی باتوں اور مشوروں پر ہی کان دھر لیں جن کے ساتھ دوستی کرنے میں مودی جی کو بڑا مزا آتا ہے۔ اور اس کے مطابق عمل کر لیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو آر ک بشپ یا کسی اور کو نہ تو خط لکھنے کی ضرورت ہوگی نہ بیان دینے کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔