مایاوتی 2019 کی کنگ میکر ہیں !

آپ ہندوستانی سیاست کے راجہ یا رانی نہیں ہو سکتے جب تک آپ کے پاس اتر پردیش کی 80لوک سبھا سیٹوں کا ایک بڑا حصہ نہ ہو جیسا کہ مودی کے ساتھ ہوا۔ کیا مایاوتی اس تاج کو سال 2019میں چھین سکتی ہیں؟

نیشنل ہیرالڈ 
نیشنل ہیرالڈ
user

ظفر آغا

2014کے عام انتخابات میں صفر ہونے کے اور 2017کے اسمبلی انتخابات میں خراب کارکردگی کے بعد میڈیا نے ان کو سیاست کے میدان سے باہر کر دیا تھا۔ سازشوں کے تحت یہ بھی دعوے کئے جا رہے تھے کہ بی جے پی سربراہ امت شاہ ان کو اپنے اشاروں پر چلا رہے ہیں کیونکہ ان کے بینک کھاتوں کی تفصیلات شاہ کے پاس ہیں۔ لیکن جب 14مارچ کو مایاوتی کی حمایت کی وجہ سے بی جے پی گورکھ پور اور پھول پور کی پارلیمانی سیٹیں ہار گئی تو مایاوتی ایک مرتبہ پھر اتر پردیش کی انتخابی سیاست کے مرکز میں آ گئیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ مایاوتی نے اتر پردیش کی سیاست میں واپسی ہی نہیں کی ہے بلکہ وہ قومی سیاست کی بھی اہم کھلاڑی بن کر سامنے آئی ہیں۔

حقیقت میں بی ایس پی سپریمو سال 2019میں ایک کنگ میکر کی شکل میں سامنے آئی ہیں۔ اب کوئی ان سے نفرت کرے یا ان کو پسند کرے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ سال 2019میں ان کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ایک طرف جہاں بی جے ان کو روکنا چاہے گی تو دوسری جانب اس اتر پردیش میں جو پارلیمنٹ میں 80ارکان بھیجتا ہے وہاں کی سیاسی پارٹیاں ان سے انتخابی اتحاد کرنے کے لئے لائن میں لگی ہوئی ہیں۔ اورکیوں نہ لائن لگائیں مایاوتی کی اتر پردیش کے 20فیصد دلت ووٹ پر گرفت ہی ایسی ہے۔اپنے ووٹوں کو اپنی حلیف جماعت کو منتقل کرنے کی مایاوتی کی صلاحیت کا کوئی مقابلہ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو اپنے ایک اشارے سے کسی بھی امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ منتقل کرا سکتی ہیں۔

مایاوتی میں ایسی کچھ تو بات ہے کہ سماجوادی سربراہ اکھیلیش یادو خود ’بوا جی‘ کے گھر ان کی حمایت کا شکریہ ادا کرنے گئے۔ اکھیلیش بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دو جادوئی انتخابی کامیابی مایاوتی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

اس لئے جو بھی اتر پردیش جیسی انتہائی اہم ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اس کا مایاوتی کے ساتھ کوئی تال میل ہونا ضروری ہے۔ آپ ہندوستانی سیاست کے راجہ نہیں ہو سکتے جب تک اتر پردیش کی لوک سبھا کی سیٹوں کا ایک بڑا حصہ آپ کے پاس نہ ہو۔ بی جے پی کو سال 2014میں 71سیٹیں ملی تھیں جس کی وجہ سے ملک کا تاج مودی کو پہننا نصیب ہوا ۔ مایاوتی سال 2019میں مودی کا تاج چھین سکتی ہیں اور فیصلہ کر سکتی ہیں کہ آگے یہ تاج کس کو پہنایا جائے۔

لیکن ایک سیاسی متبادل ایسا ہے جس کو مایاوتی استعمال نہیں کریں گی۔ اتر پردیش کے دلت روائتی طور پر مایاوتی کے ساتھ رہتے ہیں لیکن انہوں نےسال 2014میں مودی کو بڑی تعداد میں ووٹ کیا تھا مگر یہی ہندتوا بریگیڈ پھر دلتوں کے خلاف ہو گئی۔ میرٹھ سے سہارنپور، گورکھ پور سے باندا تک درجنوں دلت مخالف فسا د ہوئے۔ دلت بی جے پی کے خلاف ہو گئے اور اس کے بعد بھیم پارٹی کے چندر شیکھر ایک نئے دلت قائد بن کر ابھرے۔ مایاوتی اپنے لوگوں کے خلاف نہیں جا سکتیں اس لئے وہ سال 2019میں بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گی۔

اس لئے سیکولر قووتوں کے ساتھ مایاوتی کے اتحاد ہونے کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ اگر مایاوتی، اکھیلیش اور راہل اتر پردیش میں ساتھ آ جاتے ہیں تو پھر اتر پردیش کا انتخابی نقشہ بدل دیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔