بنگال: فرقہ وارانہ تشدد کے سہارے بی جے پی کی کرسی پر قبضہ کی کوشش

بی جے پی اور سنگھ نے بنگال میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے سماج کو بانٹنے کی ایک خطرناک سازش رچی ہوئی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ تین سالوں میں وہاں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ریتا تیواری

مغربی بنگال میں اب ہندو ۔مسلم دنگے عام بات ہوتی جا رہی ہے اور یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ حال کے دنوں میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے جو وہاں اپنے پیر جمانے کے لئے ایسا ماحول بنا رہی ہے۔

دنگوں میں اضافہ کی جانب سرکاری اعداد و شمار بھی اشارہ کرتے ہیں۔اس سال6 فروری کو لوک سبھا میں سال 2015 کے لئے پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس سال 27 فرقہ وارانہ تشدد کے واقعا ت ہوئے جن میں پانچ افراد کی موت ہوئی جبکہ سال2017 میں فرقہ وارانہ تسدد کے واقعات میں اضافہ ہوا اور ان کی تعداد بڑھ کر 58 ہو گئی جن میں نو افراد کی موت ہوئی جبکہ زخمیوں کی تعداد بڑھ کر 200 پہنچ گئی ہے ۔مرکزی حکومت نے اس رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔

بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی نے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ بی جے پی دنگے بھڑ کانے والی پارٹی ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ رام اور رحیم کے نام پر یہ پارٹی ہمیشہ دنگے بھڑکانے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ گزشتہ سال مغربی بنگال کے جس بشیرہاٹ اور باڈریا علاقوں میں تین دن تک فرقہ وارانہ دنگے ہوئے تھے وہ اپنے آپ میں بڑا واقعہ تھا کیونکہ آزادی کے بعد سے کبھی وہاں کوئی تشدد نہیں ہوا تھا اور ممتا بینرجی نے اس میں بی جے پی اور سنگھ کا ہاتھ بتایا تھا۔

معروف ماہر اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے بھی ان حالا ت پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان واقعات کی گہرائی میں جاکر ان کا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔ سجاتو بھدر کہتے ہیں ’’بی جے پی کی ہندوتو کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لئے ترنمول بھی اکثر نرم ہندوتو کی راہ پکڑ لیتی ہے‘‘۔ کولکتہ کے پریسیڈینسی کالج کے سابق پرنسپل عمل کمار مکھرجی کہتے ہیں ’’بنگال نے بہت کم وقت میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو بڑھتے دیکھا ہےاور یہ بنگال کی شبیہ سے میل نہیں کھاتے‘‘۔

بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کی خونی تاریخیں

مارچ 2018 میں آسنسول۔رانی گنج میں رامنومی کے جلوس کے دوران تشدد بھڑکا جس میں 5 لوگوں کی موت ہوئ ، درجنوں زخمی ہوئے اور5 کروڑ سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا۔

جولائی 2017 میں 24 پرگنا کے بشیرہاٹ اور بادڑیا میں دنگے ہوئے جس میں ایک شخص کی موت ہوئی اور ایک کروڑ کا مالی نقصان ہوا۔ تشدد کی وجہ فیس بک پر ایک متنازعہ پوسٹ کا لکھا جانا تھا ۔

دسمبر 2016 میں عید ملاد النبی کے جلوس کے دوران دھولاگڑھ میں حملے کے بعد تشدد ہوا جس میں کئی افراد زخمی ہوئے اور پانچ کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا ۔

جنوری2016 میں مالدا میں تشدد ہوا جس کی وجہ اتر پردیش کے ہندو مہاسبھا کے رہنما کملیش تیواری کا اسلام مخالف بیان تھا اور اس میں کروڑ سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا۔

بنگال کے ایک کالج کے پروفیسر رجت کمار منڈل کہتے ہیں ’’بی جے پی اور اس سے جڑی ہندو تنظیمیں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندوؤں کو لامبند کرنے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے ‘‘۔وہ مزید کہتے ہیں کہ بی جے پی اگلے عام انتخابات اور اسمبلی انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے ایسا کر رہی ہے اور وہ مذہب کی بنیاد پر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Oct 2018, 8:26 AM