بی جے پی حکومت کی پالیسیوں سے ’گرین بیلٹ‘ کا کسان ناراض

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یو پی کے گنّا کمشنر سنجے بھسریڈی کے خلاف ہتک عزتی کا نوٹس جاری کر دیا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے پوچھا کہ گنّا کسانوں کو 11 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی سود سمیت کیوں نہیں کی گئی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

مظفر نگر: آپ کے ذہن میں 2 اکتوبر کی دہلی بارڈر کی وہ تصویر اب تک اپنی مضبوط شبیہ بنا چکی ہوگی جس میں ایک بزرگ کسان لاٹھی لے کر 10-8 پولس اہلکاروں سے نبرد آزما ہے۔ ساتھ ہی وہ ٹریکٹر بھی یاد ہوگا جو بیرکیٹنگ توڑ کر دہلی کے اندر گھس جانا چاہتا ہے۔

23 ستمبر کو بجنور کے کلکٹریٹ میں جمع ہزاروں کسانوں کی بھیڑ اپنا حق مانگ رہی تھی۔ انھیں مڈل گنگا پروجیکٹ کے تحت معاوضہ چاہیے تھا۔ اس سے سنبھل، امروہہ اور بجنور کے کسان متاثر ہوئے ہیں۔ پانچ مہینے قبل کیرانہ کی فتح گنّا بنام جناح کے نعرے سے ہی نکلی تھی۔ یہ تب تھا جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گنّا کو ذیابیطس کی وجہ بتا دیا۔

25 ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یو پی کے گنّا کمشنر سنجے بھسریڈی کے خلاف ہتک عزتی کا نوٹس جاری کر دیا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے پوچھا کہ گنّا کسانوں کو 11 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی سود سمیت کیوں نہیں کی گئی۔ اس سے 40 لاکھ کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی ستمبر میں کاندھلا کے ایک کسان نے قرض سے پریشان ہو کر خودکشی کر لی۔

سوال ہے کہ ہندوستان میں سب سے خوشحال ریاست کہے جانے والے مغربی اتر پردیش کا کسان واقعی اتنا پریشان ہے کہ وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لاٹھی لے کر ہتھیار بند پولس والوں سے نبرد آزما ہو جائے، پیدل 200 کلو میٹر کا سفر کریں اور قرض نہ ادا کر پانے پر پھانسی لگا لے!

بھارتیہ کسان یونین کے جنرل سکریٹری راکیش ٹکیت کہتے ہیں ’’کسان طویل مدت سے سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرانے اور قیمت و قرض معافی کے سوال پر تحریک چلا رہا ہے۔ حکومت کے چار سال پورے ہو جانے کے بعد بھی جگہ جگہ کھڑی ہو رہی کسان تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کسانوں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

یہی سبب ہے کہ کسان بڑی تعداد میں زراعت چھوڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر زمین اب ٹھیکے پر دے دی گئی ہیں اور بڑے کسانوں نے روزی روٹی کے لیے دوسرے راستے تلاش کر لیے ہیں۔ سہارنپور کے بڑے کسانوں میں شمار ارشاد چودھری کہتے ہیں کہ کسانوں کی خودکشیاں رکی نہیں ہیں بلکہ بڑھ ہی رہی ہیں۔ کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے کے سبب قرض کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔

وزیر اعظم فصل بیمہ منصوبہ کسانوں کے مفاد میں نہ ہو کر بیمہ کمپنیوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔ اس کسان یاترا میں گنّا بھی ایک بڑا ایشو ہے۔ گزشتہ دنوں 22 ستمبر سے 2 اکتوبر تک ہری دوار سے دہلی تک ہزاروں کسانوں کی پد یاترا نکالی گئی، ہزاروں کی تعداد میں کسان رُڑکی، مظفر نگر، میرٹھ اور غازی آباد سے ہوتے ہوئے دہلی جا رہے تھے۔ یہاں بھاری پولس فورس کے ساتھ ان کا استقبال ہوا، پانی کی بوچھاریں ہوئیں اور کسانوں پر لاٹھیاں چلائی گئیں۔ بھارتیہ کسان یونین کے بینر تلے نکالی جا رہی اس پد یاترا کو نصف رات کو کتم کرنا پڑا، ایسا کیوں؟ اس پر طرح طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔

بھارتیہ کسان یونین ترجمان دھرمیندر ملک کے مطابق ’’ملک کے گنّا کسانوں کا تقریباً 19 ہزار کروڑ روپیہ گنّا سیزن بند ہونے کے بعد بھی بقایہ ہے۔ انتخابی منشور میں بی جے پی نے 14 دن میں گنّا ادائیگی کی بات کہی تھی۔ بی جے پی کا یہ وعدہ بھی کسانوں کے لیے جملہ ہی ثابت ہوا ہے۔ کسان کے نام پر بنی ایک کمیشن کی رپورٹ گزشتہ 15 سال سے دھول چاٹ رہی ہے۔ اسے نافذ کرنا تو دور آج تک اس پر پارلیمنٹ میں بحث بھی نہیں ہوئی۔ حکومتوں کے ذریعہ کسانوں پر ظلم جاری ہے، ہم اس کے لیے پدیاترا نکال رہے تھے۔ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے مگر ہم پوری طرح بھروسہ نہیں کر رہے۔ اب کسانوں کو مرنے کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتے۔

مظفر نگر فساد کے بعد بھارتیہ کسان یونین سے پوری طرح دور ہو گیا مسلمان اس بار اس سے جڑ گیا تھا۔ بھارتیہ کسان یونین کا مظفر نگر کے مشہور علاقے کھالاپار میں استقبال کیا گیا اور کبھی مسلمانوں کے داڑھی کے بال نوچنے کی بات کہنے والے نریش ٹکیت کو مسلمانوں نے مالا پہنائی۔ اس کے بعد اسی اسٹیج سے اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے ایک ساتھ لگے۔

نریش ٹکیت نے یہاں کہا کہ ’’کسان کو ہندو-مسلم میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے اور پرانی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ ہندو-مسلم میں بنٹنے سے کسان کی طاقت کمزور ہو گئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کسانوں میں اتحاد پید اہو رہا ہے جو حکومت کے لیے پریشانی پیدا کر سکتی ہے، کچھ مقامی مل مالک بھی کسانوں کو بانٹ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ کسان کی صرف ایک ذات ہے اور وہ ہے ’کسان‘۔

فساد کے بعد مسلمانوں نے الگ الگ کسان تنظیم بنا لیا تھا، اس کے صدر غلام محمد جولا اس ماہ بھارتیہ کسان یونین کے ساتھ اسٹیج شیئر کر چکے ہیں۔ یہ بھی کسانوں کا ایک الگ گروپ ہے۔ 27 نومبر کو ایک الگ تنظیم بھارتیہ کسان مزدور منچ نے دہلی کوچ کا اعلان کیا ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ سردار وی ایم سنگھ کسانوں کی قانونی لڑائی لڑنے کے لیے ملک بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ وی ایم سنگھ کہتے ہیں کہ ’’کسانوں کے نام پر سیاست تو بہت ہو رہی ہے لیکن حالات اب تک بدتر ہیں۔ ظاہر ہے غلہ اُگانے والوں کو لگاتار دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ ہم اس بار مسئلہ کا حل نہ نکلنے تک لڑیں گے۔‘‘

کیا یہ ممکن ہے کہ بھارتیہ کسان یونین کے سربراہ ٹھاکر پورن سنگھ، بھارتیہ کسان یونین کے سربراہ نریش ٹکیت بھارتیہ کسان مزدور سنگٹھن کے سربراہ غلام محمد جولا اور بھارتیہ کسان مزدور منچ کے سردار وی ایم سنگھ ایک اسٹیج پر آ کر کسانوں کی آواز بلند کر سکتے ہیں۔

بھارتیہ کسان مزدور سنگٹھن کے ترجمان راشد عظیم کے مطابق اس وقت کسان پریشانی میں ہے۔ وہ فصلوں کی کم قیمت، بجلی کی بڑھتی قیمت اور گنّا ادائیگی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ حکومتیں اور مل مالکان کسانوں سے کھیل رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں سبھی تنظیمیں اپنے اپنے طور پر کسانوں کی آواز اٹھا رہے ہیں۔ اگر ضروری ہوگا تو وہ ایک اسٹیج پر بھی آئیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Oct 2018, 7:08 PM
/* */