مودی حکومت کے عبوری بجٹ سے مسلمانوں کو کیا ملا؟

مودی حکومت کا دعوی تھا کہ وہ اقلیتی طبقہ کی ضروریات کو پورا کر کے اسے مرکزی دھارے میں لا کھڑا کرے گی لیکن اس مرتبہ انتخابی بجٹ ہونے کے باوجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مودی حکومت نے کبھی بڑے زور و شور سے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ نعرے کی تشہیر کی تھی۔ حکومت کا دعوی تھا کہ بجٹ کے ذریعہ اقلیتی طبقہ کی تمام ضروریات کو وہ نہ صرف پورا کرے گی بلکہ ان کو فروغ دے کر مرکزی دھارے میں بھی لا کھڑا کرے گی۔ لیکن اس مرتبہ انتخابی بجٹ ہونے کے باوجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس مرتبہ کے بجٹ میں مودی حکومت نے اقلیتی امور کے لئے کل 4700 کروڑ کی رقم مختص کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں بھی اس وزارت کے لئے 4700 کروڑ روپے ہی مختص کئے گئے تھے۔ یعنی اس مرتبہ کے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ بلکہ جب ہم اس بجٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم چلتا ہے کہ اس مرتبہ مرکزی حکومت نے اقلیتوں کے لئے چل رہی کئی اہم اسکوموں کی رقم یا تو ختم کر دی ہے یا پھر پہلے سے کم کر دی ہے۔

پری میٹرک اسکارلرشپ کے لئے مجوزہ بجٹ اس مرتبہ کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2018-19 میں اس اسکیم کے لئے 1269 روپے مختص کئے گئے تھے لیکن اس سال اس رقم کو کم کر کے محض 100 کروڑ رپے کر دیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ اسکلالرشپ اقلیتوں کی بہبود کے حوالہ سے اہم مانی جاتی ہے کیونکہ اس سے غریبوں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

’نیشنل مائنارٹی ڈیولپمنٹ اینڈ فنانس کارپوریشن‘ کا بجٹ بھی اس مالی سال میں کم کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2018-19 میں اس کے لئے 165 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن اس سال اس کے لئے صرف 60 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

سماجی مساوات، ہم آہنگی اور قومی کی ترقی کے مقصد سے چلائے جا رہے ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کا بجٹ بھی حکومت نے اس مرتبہ کم کر دیا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2018-19 میں اس کے لئے 123.76 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن اس مرتبہ محض 70 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

بیرون ملک تعلیم کے لئے دئے جانے والے ’ایجوکیشنل لون‘ پر سبسڈی میں بھی کمی کی گئی ہے اور اس کے لئے مختص کی گئی رقم گزشتہ سال کی 45 کروڑ کے مقابلہ کم کر کے 30 کروڑ کر دی گئی ہے۔

مرکزی حکومت خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو لیکن کچھ اسکیمیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کی جاتی کیونکہ یہ اسکیمیں ایک طبقہ کے مستقبل سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک اسکیم ’ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام‘ (ایم ایس ڈی پی) ہے لیکن اس مرتبہ اسے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کی جگہ ’پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم‘ شروع کیا گیا ہے جس کے لئے 1431 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

ریاستی وقف بورڈوں کے ریکارڈ کمپیوٹرائیزیشن کی اسکیم کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، اس مرتبہ قومی وقف ترقی اسکیم اور شہری وقف املاک ترقی منصوبہ کی شروعات کی گئی ہے اور اس کے لئے 20.66 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اقلیتوں کے لئے چلائی جا رہی اسکیموں کا انجام چاہے جو بھی ہو لیکن اس کی تشہیر کاری میں حکومت کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ اس کئے سال 2018-19 میں 55 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن اس مرتبہ 60 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں وزارت برائے سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی اسکیموں کو بھی شامل دکھایا گیا ہے تاکہ پہلی نظر میں ہر کسی کو یہ ہی نظر آئے کہ حکومت نے اقلیتی بہبود کے لئے دل کھول کر بجٹ میں اضافہ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اسکیموں اور ان کے لئے طے بجٹ کو دونوں مقامات پر ظاہر کیا گیا ہے اور بجٹ کی رقم بھی کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ پورے 1573.25 کروڑ روپے اس کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

غور طلب ہے کہ عام بجٹ میں ملک کے تقریباً 20 فیصد اقلیتوں کی بہبود کے لئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ کل بجٹ کا تقریباً 0.2 فیصد حصہ ہی ہے۔ ایسے حالات میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ مودی حکومت کا ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ کتنا کھوکھلا ہے۔

یہ اسٹوری بیونڈ ہیڈلائنز پر ہندی میں شائع ہو چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔