نوٹ بندی کے اعلان سے 3 گھنٹے پہلے ہی آر بی آئی نے یہ قدم اُٹھانے سے کیا تھا منع

ایک آر ٹی آئی کے ذریعہ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ نوٹ بندی کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے ہی آر بی آئی نے مودی حکومت سے واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اس قدم سے کالے دھن پر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔

نوٹ بندی کے بعد پیسہ نکالنے کے لئے قطار میں کھڑے  پریشان حال لوگ، سوشل میڈیا 
نوٹ بندی کے بعد پیسہ نکالنے کے لئے قطار میں کھڑے پریشان حال لوگ، سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مودی حکومت نے نوٹ بندی کی چاہے جتنی بھی خوبیاں شمار کرائی ہوں لیکن اکثر اس کے نقصانات مختلف رپورٹوں کے ذریعہ سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن ایک آر ٹی آئی کے ذریعہ 11 مارچ کو جو بات سامنے آئی، وہ حیران کرنے والی ہے۔ دراصل کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے پیر کے روز آر ٹی آئی کا ایک جواب جاری کیا جس میں صاف لکھا ہے کہ نوٹ بندی سے ہونے والے نقصانات کے تئیں آر بی آئی نے مودی حکومت کو متنبہ کیا تھا۔ سات صفحات پر مبنی اس انکشاف سے واضح ہوا ہے کہ نوٹ بندی کے اعلان کے چند گھنٹے پہلے ہوئی آر بی آئی کی میٹنگ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں کالے دھن کا بڑا حصہ نقد کی جگہ رئیل اسٹیٹ یعنی زمین جائیداد میں لگایا گیا ہے۔ ایسے میں نوٹ بندی کرنے سے کالے دھن پر اور زمین جائیداد پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ اس میٹنگ میں آر بی آئی کےاس وقت کے گورنر ارجت پٹیل کے ساتھ ہی موجودہ گورنر ششی کانت داس بھی موجود تھے۔

اسی میٹنگ میں آر بی آئی کے ڈائریکٹرس نے کہا تھا کہ صرف 400 کروڑ روپے کے فرضی نوٹ بازار میں ہیں جب کہ کل نقدی 15 لاکھ کروڑ کے آس پاس ہے۔ ایسے میں یہ رقم بے حد چھوٹی ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میٹنگ میں ایک اور نتیجہ نکالا گیا تھا کہ نوٹ بندی سے دہاڑی مزدور، ہوٹلوں اور ٹیکسی چلانے والوں سمیت بس، ٹرین اور ہوائی سفر کرنے والوں پر سب سے پہلے اور زیادہ اثر پڑے گا۔

غور طلب ہے کہ پی ایم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کو رات بجے نوٹ بندی کا اعلان کرتے وقت کہا تھا کہ ملک کی معیشت کو کیش لیس یعنی بلانقدی بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس اعلان سے پہلے ہوئی آر بی آئی کی میٹنگ میں بینک بورڈ نے اسے بھی خارج کر دیا تھا۔ بورڈ کا کہنا تھا کہ نقدی کا چلن ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور نوٹ بندی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

آر ٹی آئی کے تحت ملی ان جانکاریوں کو جاری کرتے ہوئے جے رام رمیش نے کہا کہ نوٹ بندی کے دن ہوئی آر بی آئی میٹنگ کے منٹس (میٹنگ میں ہوئے فیصلوں کی تفصیلات) حاصل کرنے میں 26 مہینے کا وقت لگا۔ انھوں نے بتایا کہ نوٹ بندی کے بعد ریزرو بینک کے اس وقت گورنر ارجت پٹیل تین الگ الگ اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، لیکن انھوں نے کسی بھی میٹنگ میں آر بی آئی بورڈ کی اس میٹنگ کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ ریکارڈ کے مطابق یہ آر بی آئی بورڈ کی 561ویں میٹنگ تھی۔ لیکن حیرانی والی بات یہ ہے کہ میٹنگ کے نتائج اور بورڈ کے اعتراضات کے باوجود نوٹ بندی کے حکومت کے فیصلے پر مہر لگا دی گئی تھی۔ جے رام رمیش نے الزام عائد کیا کہ آر بی آئی نے اس فیصلے کو منظوری وزیر اعظم نریندر مودی کے دباؤ میں دی تھی۔

جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ یہ جانکاری سامنے آنے کے بعد یہ بات اب صاف طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ریزرو بینک کو نوٹ بندی کے نتیجے اسی وقت پتہ تھے اور بہتری ہونے کی جگہ پریشانی کے بڑھنے کی بات اسے پتہ تھی۔ لیکن ریزرو بینک کے افسران کی دلیلوں اور نتائج پر غور کرنے کی جگہ پی ایم مودی نے اپنے من سے فیصلہ لیا۔ مسٹر رمیش نے کہا کہ نوٹ بندی ملک پر کسی قہر سے کم نہیں تھی۔ اس کے بعد جو معیشت تباہ ہوئی اس سے سبھی واقف ہیں اور ابھی تک حالات بہتر نہیں ہوئے۔ پہلے سے تباہ ہو چکی دیہی معیشت اس لیے مزید برباد ہو گئی کیونکہ شہروں میں کام کرنے والا مزدور ایک بار پھر لوٹ کر اپنے گاؤں میں چلا گیا، جہاں بھکمری پہلے سے ہی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ نتیجتاً کبھی پوری فیملی کے پیٹ کا ذریعہ بنا شخص اب خود ہی فیملی پر بوجھ بن گیا۔

جے رام رمیش نے آر بی اائی کے سنٹرل بورڈ کے بارے میں آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کی تفصیل رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ لوک سبھا انتخاب کے بعد کانگریس کی حکومت بنی تو نوٹ بندی کے بعد ٹیکس چوری کے لیے پناہ گاہ مانی جانے والی جگہوں پر پیسے لے جانے میں غیر معمولی اضافے اور ملک کے بینکوں میں غیر معمولی طریقے سے پیسے جمع کیے جانے کے معاملوں کی جانچ کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Mar 2019, 9:09 PM